آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران مغربی میڈیا کی جانب سے صدام کی حمایت

آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران مغربی میڈیا کی جانب سے صدام کی حمایت

جمہوری اسلامی کے آٹھ سالہ دفاع مقدس کےدوران اسلامی مجاہدوں نے سامراجی طاقتوں کے حمایت یافتہ اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس مسلح دشمن کو پسپائی پر مجبور کرتے ہوئے اسے ان کی اپنی سرزمین کی جانب دکھیل دیا۔

جمہوری اسلامی کے آٹھ سالہ دفاع مقدس کےدوران اسلامی مجاہدوں نے سامراجی طاقتوں کے حمایت یافتہ اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس مسلح دشمن کو پسپائی پر مجبور کرتے ہوئے اسے ان کی اپنی سرزمین کی جانب ڈھکیل دیا۔

جماران نے ہفتہ دفاع مقدس کی مناسبت سے تیار کردہ رپورٹ میں غیر ملکی میڈیا کے جانبدار کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بعض  موارد کی نشاندہی کی ہے: 

نیویارک ٹائمز کا آپریشن کربلا-5 کے خلاف ماحول سازی

بصرہ کے مضافات میں عراقی افواج نے ایرانی فورس کے حملوں کا جواب دیتے ہوئے انہیں پسپا کردیا ہے اور چھ ہفتے کی اس جنگ میں عراق کو ایران پر بالا دستی حاصل ہے۔

ایرانی حکام کی جانب سے اس دعوی کے باوجود کہ آپریشن کربلا-5 اب بھی جاری ہے، عراقی افواج نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے بعض علاقوں کو واپس لینے میں کامیابی حاصل کی ہے جس کی بعض ذرائع سے تصدیق ہوئی ہے۔

بی بی سی کے مطابق آٹھ سالہ دفاع مقدس

بی بی سی اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے: عراق کی فضائیہ نے تہران بین الاقوامی ائیرپورٹ سمیت ایران کے بہت سے ہوائی اڈے اور فوجی مراکز پر بمباری کی ہے۔

ایران اور عراق کے درمیان کشیدگی اس وقت وجود میں آئی جب عراق نے 1975 میں انجام پانے والے  سرحدی معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے پھاڑ دیا! اس معاہدے کے تحت شط العرب {اروند رود} کی آبی گزرگاہ پر ایران کو حاکمیت حاصل تھی۔

مغربی سفارت کاروں کے مطابق، عراق کے صدر صدام حسین، اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں پیدا ہونے والے بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شط العرب کی آبی گزرگاہ پر ایران کی حاکمیت کو ختم کرنے کوشش میں ہے، 1975 میں انجام پانے والے سرحدی معاہدے  کے تحت شط العرب کی آبی گزرگاہ پر ایران کو حاکمیت کا حق حاصل ہے۔

دنیاکے دو سپر پاور طاقت امریکہ اور رشیا نے اس جنگ میں  اپنا موقف بیان کرتے ہوئے غیر جانبداری کا اعلان کیا ہے۔

عراق نے ایران کے خلاف جنگ میں مسٹرڈ گیس کا استعمال کیا 

جرمنی اشپیگل میگزین نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے: سٹاکہوم اور لندن کی لیباٹریوں میں ایران، عراق جنگ کے متاثرین کا جائزہ لیا گیا جس میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان میں اکثر حلق اور پھیپھڑوں کی جلن میں مبتلا تھے۔ عراق اور ایران کے درمیان ہونے والی جنگ میں کیمیاوی ہتھیار کا استعمال کیا گیاہے، ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ زہریلی گیس کا مرکز کہاں ہے؟!!

اس ریسرچ میں یہ بات بھی  سامنے آئی ہے  کہ مسٹرڈ گیس  کے علاوہ اعصابی گیس بھی استعمال کی گئی ہے۔

عراق اور ایران کی جنگ سے ایک سبق

 امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے مرکز بیلفاسٹ نے اپنی رپورٹ میں ایران، عراق جنگ کے حوالے سے لکھا ہے: ایران، عراق جنگ سے بہت سے دروس ہمیں ملتے ہیں جس کے اکثر پیغامات کا تعلق امریکہ اور اسرائیل سے ہے جو کبھی کبھار ایران کو حملے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں!!

انقلاب اسلامی کے بعد رونما ہونے والے کچھ حوادث کے پیش نظر صدام حسین کاخیال یہ تھا کہ وہ ایران کے خلاف جارحیت میں کامیاب ہوسکتا ہے جبکہ اس کا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ ایرانیوں نے اتحاد کا ثبوت دیتے ہوئے آیت اللہ خمینی کی قیادت میں صدام کے حملے کا بھرپور جواب دیا ہے، ایسے میں ایران کے خلاف کسی بھی ممکنہ امریکی اور اسرائیلی حملے کی صورت میں ایران کے موجودہ نظام کے حامیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

ای میل کریں