مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (ره) کی تشکیل کے مراحل

مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (ره) کی تشکیل کے مراحل

امام علیہ الرحمہ کی میراث انہیں اصولوں اور اغراض و مقاصد سے عبارت ہے جو امام کے زندہ جاوید آثار و پیغامات اور اقوال میں بیان ہوئے ہیں

اگرچہ برسوں سے ملت ایران اسلامی انقلاب کے عظیم رہبر کے وجود و حضور کی نعمت سے محروم ہے، لیکن امام( علیہ الرحمہ) کی چھوڑی ہوئی گرانقدر میراث کی شاہد و محافظ ہے۔ ایسی میراث جو عالمی حکمرانوں کے آثار کے بر خلاف فلک بوس عمارتوں، بے پناہ ثروت اور دنیاوی شان و شوکت اور زرق و برق پر مشتمل نہیں ہے اور اس حقیقت کی گواہ جماران میں امام ؒ کے کچے کرایہ کے مکان تک جانے والی گلیاں ہیں۔ امام علیہ الرحمہ کی میراث انہیں اصولوں اور اغراض و مقاصد سے عبارت ہے جو امام کے زندہ جاوید آثار و پیغامات اور اقوال میں بیان ہوئے ہیں۔

مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ جو خود امام (علیہ الرحمہ) کی یادگار ثقافتی میراث میں سے ایک ہے، گذشتہ طویل برسوں میں اس نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ ثقافتی مراکز اور متدین ذرائع ابلاغ کے پہلو میں امام ؒکے ارشادات و فرمودات اور آثار کے حوالے سے لوگوں بالخصوص جو ان نسل کے عمیق اور گہرے پیوند و اتصال کی پاسداری کرلے اور امام کے آثار کے لاکھوں نسخے تنظیم اور نشر کر کے نیز اپنی دوسری رنگارنگ سرگرمیوں کے ذریعے ملک اور بیرون ملک میں امام کے ارشادات وفرمودات کو عام کر کے اسلامی معاشرے میں موثر اور مفید قدم اٹھائے۔ 

زیر نظر کتابچہ کی کوشش ہے کہ مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ کی تشکیل و تکمیل کی تشریح کرے اور انواع و اقسام کی سرگرمیوں کے حوالے سے اس ادارہ کی تشکیل کے اغراض و مقاصد سے مخاطبین کو روشناس کرائے ، تاکہ اجمالی تعارف کے ضمن میں مختلف شعبوں میں محققین کے تعاون کے راستے کھلیں اور وہ اس حوالے سے مؤسسہ کے 
ساتھ تعاون کر سکیں اسی طرح اس مجموعے میں مؤسسہ کے اغراض و مقاصد کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔


مؤسسہ تنظیم و نشر آثار حضرت امام خمینیؒ

تدوین و تنظیم: معاونت فرہنگی و ارتباطات ۔ ۲۰۰۸

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ستمبر ۱۹۸۸ میں حجۃ الاسلام والمسلمین سید احمد خمینیؒ نے چند اہم اور بنیادی نکات ایک خط کے ذریعے امام خمینیؒ کی خدمت میں مندرجہ ذیل شرح کے ساتھ پیش کئے:


بسم اللہ الرحمن الرحیم

میرے عزیز و مقصود پدر بزرگوار !

سلام و تحیت کے بعد : 


۱۔ جناب عالی کے بعد [کہ خدا وہ بدترین دن نہ دکھائے] ایک سب سے اہم مسئلہ جو فرزندان انقلاب ، محققین اور گوناگون افراد کے موقف و اقدامات اور کبھی ان کے اختلاف کا موجب ہوسکتا ہے، ایک متن سے ان کی سیاسی اور غیر سیاسی مختلف قسم کی نتیجہ گیری ہے کہ وہ اس سے کیا مفہوم اخذ کرتے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ آپ کے شائع شدہ اور غیر مطبوعہ اتنے متون ہیں جو ہمارے پاس ہیں اور ان کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے آپ سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے کہ مختلف اسباب و علل کی بناء پر کبھی خود آپ نے اور کبھی میں نے یا مسؤلین حکومت نے یا بعض معمولی افراد نے آپ کی تقریروں کے بعض حصوں کو حذف یا تغییر کرنے یا بعض جملوں کا اضافہ کرنے کی آپ کے اعلان میں تاکید کی ہے کہ کبھی آپ نے قبول نہیں فرمایا اور کبھی دقت اور غور و خوض کرنے کے بعد حذف و تغییر یا اضافہ کا اپنے حسب منشا حکم صادر فرمایا کہ انجام پائے۔ اب اگر کسی روز یہ نوبت آئے[کہ حتماً آئے گا] آپ کی تقریریں، اعلانات یا اس طرح کے دوسرے مطالب جو ریڈیو اور ٹی وی سے آپ کی آواز اور آپ کی تحریر کی شکل میں نشر ہوئے ہیں، مسلّم ہے کہ متن دستخط یا متن اصلی آوازا ورفلم بے داغ اصل بن کر سامنے آئے اور جیسا کہ گزرا جو چیز کم و زیادہ اگرچہ بہت اہم ہو علیحدہ کردی جائے یا تقریر کے اصلی متن اور خط کے تحت الشعاع میں واقع ہو ایسی صورت میں یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔

۲۔ ایک دوسرا مسئلہ کہ بہتر ہے حضرت عالی اس کے بارے میں غور کریں یہ ہے کہ جرائد ، ریڈیو اور ٹی وی ، اعلانات اور بیانات میں حضرت عالی کے نشر شدہ مطالب یکساں اور ایک صورت میں نہیں ہیں، کبھی دیکھا گیا اخبار یا مجلہ میں کچھ وجوہات کی بناء پر خواہ سیاسی خواہ غیر سیاسی یا سہواً جملہ یا جملے اعلانات اور تقریروں کے جھروکھوں سے ایک اخبار میں آئے ہیں اور دوسرے اخبار میں نہیں آئے ہیں، ایسی صورت میں کس کو اصل قرار دیا جائے، وہ متن جو اس جملہ پر مشتمل ہے یا وہ متن جس میں یہ جملہ نہیں ہے؟ واضح ہے کہ یہ تردید وہاں پر ہے جہاں آپ کے خط اور آپ کی آواز تک رسائی ممکن نہیں ہے اور ایسا بہت ہے، کیونکہ بیشتر اوقات آپ کی گفتگو میں یا احباب لکھتے ہیں اور آپ کی منظوری کے بعد مطبوعات وغیرہ کو بھیجتے ہیں۔ کون تشخیص دے کہ وہ جملہ آپ کا ہے یا نہیں ؟ واضح ہے کہ کبھی حذف و تغییر یا کسی جملہ کا اضافہ جملہ کے مطلب کو بالکل بدل کر رکھ دیتا ہے۔


۳۔ ایک اور مسئلہ ہے کہ آپ کے خطوط، نوشتہ جات، پیغامات، فلم، کیسٹ اور اشعار جو بالکل منظر عام پر نہیں آئے اور نشر نہیں ہوئے ہیں اور دفتر کی الماری میں محفوظ ہیں ، ان کے بارے میں بھی وضاحت فرمائے کہ ان کا کیا کیا جائے؟


۴۔ حضرت عالی کا ریکارڈ ساواک میں ہے (جو اس وقت وزارت اطلاعات کی دسترس میں ہے) اور اس کا ایک نسخہ میرے پاس موجود ہے۔ ضروری ہے کہ حضرت عالی کو مطلع کروں کہ صرف حضرت عالی کے وہ ریکارڈ جو تہران میں ہے ۴۸ جلدوں پر مشتمل ہے کہ تقریباً ہر جلد پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے کہ بلاشک اس کے نشر کرنے سے بہت سارے ایسے مسائل سے پردہ اٹھے گا اور طبیعی ہے کہ اسلامی انقلاب کی گرانقدر ترین اسناد ہے۔


۵۔ کتابیں اور نوشتہ جات جو صرف علمی یا اخلاقی ہیں، نہایت نفیس کتابوں میں سے ہیں جو فقہی، اخلاقی، فلسفی، عرفانی اور اصولی انقلاب کی بنیاد ہوسکتی ہیں۔


۶۔ استفادہ اور تحقیق و تحلیل نیز انقلاب کے قبل و بعد سے مربوط اسناد و مدارک، خطوط اور بیانات و غیرہ کی اشاعت جو حضرت عالی یا دفتر کے عنوان سے ارسال ہوئے ہیں اور اس وقت دفتر میں موجود ہیں۔


۷۔ اس خط کے لکھنے کا باعث بننے والے موارد کے دو تین نمونے بعنوان ضمیمہ اور مثال پیش خدمت ہیں۔


خدا آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے

آپ کا فرزند : سید احمد خمینی

اوائل ستمبر ۱۹۸۸

 

حکم امام خمینی(رہ)


امام خمینیؒ نے مذکورہ خط کے جواب میں کہ کس طرح آپ سے متعلق اسناد و مدارک کی تنظیم و تدوین ہو اور ان آثار کو حفظ ونشر کیا جائے یہ حکم صادر فرمایا:


بسم اللہ الرحمن الرحیم

میرے عزیز بیٹے احمد۔ حفظہ اللہ تعالیٰ وایدہ


چونکہ الحمد للہ میں تمہیں سیاسی اور اجتماعی مسائل میں صاحب نظر جانتا ہوں اور تم تمام نشیب و فراز میں میرے ساتھ تھے اور ہو اور صداقت و ذہانت کے ساتھ میرے سیاسی اور اجتماعی امور دیکھتے چلے آرہے ہو، لہذا تمہیں اپنے سے متعلق تمام مسائل کی تنظیم و تدوین کے لئے کہ بسا اوقات ذرائع ابلاغ میں اختلافات اور غلط فہمیاں ہوتی رہتی ہیں، منتخب کرتا ہوں اور خداوند متعال سے جو حاضر و ناظر ہے، تمہارے لئے توفیقات کا طلبگار ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ اپنا وقت صرف کر کے دقت نظر کے ساتھ اس کام کو انجام و اختتام کو پہنچاؤ گے۔


والسلام علیکم

۲۶ محرم الحرام ۱۴۰۹ ھ بمطابق جمعرات ۸ستمبر ۱۹۸۸

روح اللہ الموسوی الخمینی

ای میل کریں