علامہ امام خمینی(رح) اتحاد کے بارے میں بڑے  وسیع القلب تھے

علامہ امام خمینی(رح) اتحاد کے بارے میں بڑے وسیع القلب تھے

جب وہاں ہم گئے تو ہم نے دیکھا امام خمینی(رح) بہت خدا پرست اور خدا ترس تھے، عابد و زاہد تھے۔

ہندوستان زیر انتظام کشمیر کے سرکردہ  سماجی کارکن اور تحریک حریت جموں و کشمیر کے جنرل سیکریٹری جناب محمد اشرف خان صحرائی صاحب نے عالمی اردو خبررساں ادار ے نیوز نور کے ساتھ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے وفات کی 24ویں سالگرہ کے موقعہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: علامہ امام خمینی(رح) اتحاد کے بارے میں وہ بڑے وسیع القلب تھے۔ 
جناب محمد اشرف خان صحرائی صاحب  نے کہا کہ: علامہ امام خمینی(رح) صاحب کو جب وہ برسر جدوجہد تھے اور جب وہ جلاوطنی کی زندگی بسر کررہے تھے فرانس میں تب سے میں اُن کے بار ے میں پڑھتا رہا ہوں اور اللہ کا فضل ہے کہ میں اُس عصر حاضر کے انقلابی عالم و فاضل شخصیت سے متاثر رہا ہوں۔ اس لحاظ سے کہ اُن کی زندگی اور ان کی جو زبان اور ان کا جو قول تھا اُس کے ساتھ اُن کا حال بھی ساتھ تھا۔ مطلب وہ میری نظر میں وہ اسلاف کی ہوبہو تصویر تھی۔ جو ہمارے اسلاف گزرے ہیں اُن کی ہوبہو تصویر تھی۔ اُن کی زندگی میں جہاں اسلامی اصولوں پر کاربند رہنے کا جذبہ کارفرما تھا وہاں سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ اس پر مسلسل ثابت قدم رہے۔ اُن کے قدموں میں کبھی کوئی لغزش خدا نخواستہ پیدا نہیں ہوئی اور نہ کوئی اس میں بدلاو پیدا ہوا۔ انہوں نے جلا وطنی کی زندگی بسر کی، انہوں نے جن مشکلات کا سامنا کیا، انہوں نے اس عصر حاضر میں امریکہ کی ریشہ دوانیوں اور اُن کے چیلے چانٹے جو تھے ایران میں، ان کا جو ظاہر شاہ کا دور تھا تو ان کے تمام مظالم کا مقابلہ کرتے ہوئے انہوں نے ایک ایسی جدوجہد کی جس کے بار ے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اصل میں اسی استقلال کی ضرورت ہے، اُسی پامردی سے کھڑا رہنے کی ضرورت ہے اور ہم خود چونکہ بھارتی سامراج کے غلام ہیں اور ہمیں بھی اسی انداز سے پامردی کے ساتھ کھڑا رہنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اُن کی زندگی سے ہمیں یہ رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے اپنے نظریے کے ساتھ اپنی عملی زندگی کی جو تصویر پیش کی ہے کاش وہ تصویر ہم بھی پیش کرسکیں۔ یعنی انہوں نے اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں کی، کوئی مصالحت نہیں کی، کوئی ایسا سمجھوتہ،رویہ انہوں نے اختیار نہیں کیا اور ساتھ ہی یہ کہ اُن کی زندگی بڑی سادہ تھی۔ انہوں نے رکھ رکھاؤ کا اہتمام نہیں کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اُن کی قوم اُن کیلئے بچھی رہتی تھی، اُن کی شخصیت کے آگے جب وہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے بعد واپس وطن آئے وہ منظر بھی ہم نے دیکھا ہے۔ وہ منظر جس وقت وہ آئے لوگ کس طرح بچھے جارہے تھے ان کی آمد کے موقع پر۔ لیکن اس کے باعث اُن کی زندگی میں سادگی تھی۔

صحرائي صاحب نے اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہا: میں نے ایک انگریزی میگزین میں ایک انٹرویو ان کے بارے میں پڑھا ہے ۔ وہ یورپ سے ہی کوئی اخبار کا نمائندہ آیا تھا کسی اخبار کا نام مجھے اس وقت یاد نہیں آرہا ہے کافی عرصہ پہلے میں نے پڑھا شاید اسی کی دہائی میں ہی یہ انٹرویو میری نظروں میں گزرا۔ تو انہوں نے کہا کہ میرا خیال تھا کہ امام خمینی(رح) اب اتنے بڑ ے ملک کے انقلابی رہنما ہیں اور اتنا بڑا انقلاب بیسویں صدی کا ان کی جدوجہد سے رونما ہوا ہے تو اب یہ کسے بڑ ے عالیشان محل میں رہتے ہونگے۔ ان کے یہاں رکھ رکھاؤ کا بڑا اہتمام ہوگا اور نہ جانے وہاں کس قسم کی آرائش و زیبائش کے سامان موجود ہونگے۔ لیکن جب میں نے اجازت چاہی اور میں اندر داخل ہوا تو میں نے اُن کو ایک قالین پر بیٹھے دیکھاتھا لیکن وہ قالین بھی کوئی اتنی زیادہ نئی نہیں تھی وہ پھٹی پرانی قالین تھی اُسی پر بیٹھے تھے۔ اور اس انداز سے بیٹھے تھے کہ نہ اُن کے ساتھ ادھر کوئی کھڑا بچوں والا تھا اُن کے ساتھ اور نہ کچھ۔ جب مجھے اجازت ملی تو فوراً اجازت ملنے کے بعد میں اُن کے کمرے میں داخل ہوگیا اور میں نے اُن کا انٹرویو لیا۔ تو اسے تاثر لینے میں حق بجانب ہوں کہ ایسے لوگ جب کسی انقلاب کے بانی ہوں، پھر ان کی اتنی سادہ زندگی ہوں کہ عام آدمی کی طرح وہ فرش پر بیٹھے تھے۔ بھلے ہی اگر وہاں قالین بی ہو لیکن قالین پر ہی بیٹھے تھے کوئی صوفہ سیٹ کا کوئی اہتمام نہیں تھا۔ دائیں بائیں کوئی سیکورٹی گارڈ وغیرہ کا کوئی اہتمام نہیں تھا۔ تو اس انداز سے وہ بیٹھے تھے تو میں نے کہا کہ حقیقی انقلاب اور واقعہ یہ ہے کہ اُس انٹرویو کو پڑھنے کے بعد میں بہت زیادہ متاثر اُن کی اسی طرز زندگی سے ہوا ہوں۔ کہ اصل میں جو حقیقی رہنما ہوتے ہیں اُن کی زندگی کی تصویر حقیقی تصویر یہی ہوتی ہے۔ وہ سادہ خوراک ہوتے ہیں، سادہ لباس ہوتے ہیں، وہ سادہ زندگی بسر کرتے ہیں لیکن اُن کے عزائم بہت بلند ہوتے ہیں، اُن کے ارادے بہت عظیم ہوتے ہیں اور اسے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اگر وہ کسی بڑے محل میں، کسی وائٹ ہاوس میں، کسی ریڈ ہاؤس میں نہیں رہتے ہیں اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ اور حقیقی انقلاب اسی زندگی سے رونما ہوتا ہے۔ تو اس طرح اُن کی زندگی کے بارے میں اُن کا جو انقلاب انہوں نے لایا تھا وہ حقیقت میں اسلامی انقلاب ہی تھا۔
سرکردہ مفکر نے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کو  اتحاد امت اسلامی کے عظیم داعی عنوان کرتے ہوئے مزید کہا: اسلامی انقلاب ہی کی وجہ سے انہوں نے ہمیشہ اتحاد ملت پر زور دیا۔ وہ اتحاد کے بہت قائل تھے۔ میں نے پڑھا ہے اُن کے بار ے میں، اُن کی وہ اسلامی حکومت والی کتاب میری نظروں سے گزری ہے، دوسر ے لٹریچر کا بہت کچھ حصہ میری نظروں سے گزرا ہے۔ تو میں یہی کہوں گا کہ اُن کے پیش نظر تو حقیقی اسلامی انقلاب ہی تھا۔ اور اسی وجہ سے وہ اتحاد کی بات کرتے تھے۔ اور وہ یہ سمجھتے تھے، وہ جانتے تھے کہ آج کے اس ملحدانہ دور میں، آج کے اس غیر خدا پرستانہ دور میں یہ جو کفر ہے وہ منظم ہے متحد ہے ہمارے اسلامی اقدار کے خلاف۔ کیوں اس رو سے جیسا کہ پیارے نبی(ص) نے فرمایا ہے کہ ‘الکفر ملت واحدہ’’ وہ کفر کو ملت واحدہ کی حیثیت سے جان گئے تھے کہ یہ ملت واحدہ ہے ہمار ے خلاف مسلمانوں کا نام و نشان ختم کرنے کے معاملے پر یہ یکجھت ہیں ایک ساتھ ہیں۔ اور ساتھ ہی ان کی نظر میں اسلام کو ختم کرنے کیلئے ہمیں یکسان کوششیں اور اکھٹے کوششیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ اُسے کئی زیادہ مسلمانوں کو ضرورت ہے اس بات کی کہ وہ ان تمام فتنوں کا مقابلہ اُس وقت تک نہیں کرسکتے جب تک وہ حقیقی اسلامی کردار اپنے اندر پیدا کریں اور حقیقی اسلامی کردار کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ جب تک نہ وہ مسلکی اختلافات سے بالا تر ہوکر، جب تک نہ وہ اس منظم کفر کے خلاف منظم جدوجہد کریں اور منظم انقلاب کی بنیادیں استوار اور مضبوط نہ کریں تب تک وہ کامیابی کی زندگی بسر نہیں کرسکتے۔ یہ میں سمجھ سکا ہوں اُن کے بارے میں۔ تو اتحاد کے بارے میں وہ بڑے وسیع القلب تھے۔     
ہندوستان زیر انتظام کشمیر کے سرکردہ  سماجی کارکن اور تحریک حریت جموں و کشمیر کے جنرل سیکریٹری جناب محمد اشرف خان صحرائی صاحب نے  مزید کہا: جیسے قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی فرمایا تھا کچھ کم و بیش اُسی کا انداز۔ انہوں نے فرمایا تھا اپنے بار ے میں ایکبار جب ان سے کہا گیا پاکستان بناتے وقت، پاکستان کی جدوجہد جب جاری تھی تو انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ شیعہ کیا ہے اور سنی کیا ہے بلکہ میں ایک مسلمان ہوں ۔ تو بہر حال حضرت امام خمینی(رح) اسی انداز فکر سے مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دیتے تھے اور اتحاد کے حوالے سے انہوں نے اپنی زندگی میں بھر پور کوشش کی۔ اُن سے عالمی سطح کی تحریکیں اسلامی جتنی بھی ہیں عالمی سطح کی اُن کا وفد ان سے ملاقات ہوا اور اس وفد کی قیادت امیر جماعت اسلامی پاکستان میاں طفیل محمد صاحب کررہے تھے۔ میں نے اُن کے تاثرات بھی پڑھے ہیں ۔ انہوں نے بھی اُس انقلاب کو دیکھ کر کیا کہا ہے وہ بھی کہہ رہے تھے کہ جب وہاں ہم گئے تو ہم نے دیکھا امام خمینی(رح) بہت خدا پرست تھے اور خدا ترس تھے، عابد و زاہد تھے اور اس طرح آپ نے ملک کی بھاگ ڈور خود تو نہیں سنبھالی لیکن تھے وہی بانی اس مملکت کے۔ تو وہ جس انداز سے اس کی بھاگ ڈور چلا رہے تھے وہ خالص لوجہ اللہ اور خالص رضائے الہٰی کے تحت وہ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ انہوں نے اسی جدوجہد میں گزارا اور اسی طرح ان کی زندگی کا انجام بھی انشاء اللہ بخیر ہوا اُسی انقلاب پر، اسی کلمے پر اور اسی نعرہ حق پر جو نعرہ حق انہوں نے چودہ سالہ جلاوطنی زندگی میں بھی دیا اُس سے پہلے بھی دیا اور اس کے بعد جب انقلاب رونما ہوا ایران میں تو اُس کے بعد بھی جب تک وہ زندہ تھے وہ اسی تعلیم اور اسی نعرے کے وہ علمبردار تھے۔ اور انہوں نے اسی طرح پوری مسلم دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر کے بہت قابل قدر جگہ مسلمانوں کے دلوں میں پائی۔

ای میل کریں