امام خمینی کی برسی پر خطاب، آپ کے مکتب فکر کے سات بنیادی اصولوں کی تشریح

امام خمینی کی برسی پر خطاب، آپ کے مکتب فکر کے سات بنیادی اصولوں کی تشریح

قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: "امام خمینی کی صحیح اور غیر تحریف شدہ شناخت کے بغیر اس نقشہ راہ پر آگے بڑھنے کا عمل جاری رکھ پانا ممکن نہیں ہوگا۔"

قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح اسلامی جمہوری نظام کے بانی امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے روضہ اقدس میں ایرانی قوم کے عظیم الشان اور کم نظیر اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر کو ملت ایران کے لئے امید بخش نقشہ راہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمنیی کی شخصیت کے حقائق میں تحریف کا سختی سے مقابلہ کئے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ مکتب امام خمینی کے مسلمہ اصولوں کا بار بار مطالعہ اس عظیم شخصیت کے بارے میں تحریف کی کوششوں کے سد باب کا واحد راستہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ ان اصولوں میں حقیقی اسلام محمدی کا اثبات اور امریکی اسلام کی نفی، اللہ کے وعدوں کی صداقت پر اعتماد اور مستکبرین کے سلسلے میں بے اعتمادی، عوام کی قوت ارادی و توانائیوں پر اعتماد اور حکومتوں پر ارتکاز کی مخالفت، محروم طبقات کی بھرپور حمایت اور اشرافیہ کلچر کی مخالفت، دنیا کے مظلومین کی حمایت اور بین الاقوامی غنڈوں کی بغیر کسی بات کا لحاظ کئے صریحی مخالفت، خود مختاری پر زور اور بیرونی تسلط کی مخالفت اور قومی اتحاد پر تاکید ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دار باقی کی جانب امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے کوچ کی چھبیسویں برسی کے موقع پر اپنے اس خطاب کی تمہیدی گفتگو میں نیمہ شعبان اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے یوم ولادت کا سعادت کا ذکر کرتے ہوئے آخری زمانے کے منجی بشریت کے موضوع کو تمام ادیان ابراہیمی کے نزدیک مسلمہ عقیدہ قرار دیا اور فرمایا: "تمام اسلامی مسلک اس نجات دہندہ کو پیغمبر ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روایتوں کی روشنی میں مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے نام سے جانتے ہیں جبکہ ان میں شیعہ مسلک کے پیروکار مسلمہ اور محکم دلیلوں کی روشنی میں اور واضح اور معین اوصاف کے ساتھ آنحضرت کے گیارہویں فرزند کو حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف مانتے اور ثابت کرتے ہیں۔"
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق مہدی موعود عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کے عقیدے کی سب سے بڑی خاصیت امید آفرینی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس عمیق اور نجات بخش عقیدے کی شمع فروزاں، شیعوں کو ظلم و تاریکی کے تمام ادوار میں مستقبل کے تعلق سے پرامید اور متحرک رکھتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس کے بعد بانی انقلاب اسلامی کی شخصیت کے بارے میں اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی شخصیت میں تحریف کے اندیشوں اور ممکنہ مضر اثرات پر روشنی ڈالی۔ آپ نے فرمایا: "امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کو صرف ان کے زمانے تک محدود رکھنے کی بعض لوگوں کی کوشش کے برخلاف امام خمینی ملت ایران کی عظیم اور تاریخ ساز تحریک کا مظہر ہیں اور ظاہر ہے کہ اگر ان کی شخصیت کے بارے میں تحریف کی گئی تو اس تحریک کے تسلسل کو یقینا نقصان پہنچے گا، بنابریں اس مسئلے میں ہمیشہ پوری طرح ہوشیار رہنا چاہئے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے سیاسی، فکری اور سماجی مکتب کو عدل، پیشرفت اور قوت جیسے اعلی اہداف تک رسائی کے لئے ملت ایران کا نقشہ راہ قرار دیا اور زور دیکر کہا: "امام خمینی کی صحیح اور غیر تحریف شدہ شناخت کے بغیر اس نقشہ راہ پر آگے بڑھنے کا عمل جاری رکھ پانا ممکن نہیں ہوگا۔"
امام خمینی کی شخصیت کے فقہی، عرفانی اور فلسفیانہ پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی کی شخصیت کو آیات قرآنی کے مفاہیم کی عملی تصویر قرار دیا اور راہ خدا کے حقیقی مجاہدین کی توصیف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہستیاں راہ حق پر چلتے ہوئے حقیقی معنی میں جہاد کے فرائض ادا کرتی تھیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران کے عظیم رہنما نے اس سرزمین اور دنیائے اسلام کی تاریخ میں بے مثال تبدیلی لانے کے لئے بوسیدہ اور غلط سلطنتی نظام کا خاتمہ کیا اور صدر اسلام کے بعد کی اسلام پر استوار پہلی حکومت کی تشکیل کی اور اپنے پورے وجود سے راہ خدا میں جہاد کا حق ادا کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے باطنی جہاد اور عمیق معنویت کو امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے سیاسی، سماجی اور فکری جہاد کی تکمیل قرار دیا اور امام خمینی کے مکتب فکر کے پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے کہا: " وہ فکری منظومہ جس نے اس عظیم تبدیلی کے امکانات فراہم کئے، یکتا پرستی پر استوار آئیڈیالوجی تھی۔"
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ہمیشہ تازہ اور عصری تقاضوں کے مطابق ہونا امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر کی دوسری اہم خصوصیت ہے۔ آپ نے فرمایا: "امام خمینی اپنے بہم پیوستہ فکری منظومے پر تکیہ کرکے ایرانی معاشرے اور دیگر انسانی معاشروں کے مسائل کا حل پیش کرتے تھے اور قومیں اس حل کی قدر و قیمت کو سمجھتی تھیں، اسی لئے قوموں کے درمیان امام خمینی کے مکتب فکر کو ترویج ملی۔"
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر کی ایک اور اہم خصوصیت اس کا زندہ، متحرک اور قابل عمل ہونا ہے۔ آپ نے فرمایا: "امام خمینی ان مفکرین، روشن خیال افراد اور ذہنی تھیوری دینے والوں کی مانند نہیں تھے جو نشستوں میں بڑی پرکشش رائے زنی کرتے ہیں لیکن میدان عمل میں کچھ نہیں کر پاتے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ ملت ایران کے اندر جذبہ و ارادہ، تحرک اور امید و نشاط کا پیدا ہونا امام خمینی کے مکتب فکر کے مبارک ثمرات تھے۔ آپ نے فرمایا:"عظیم الشان ملت ایران ابھی اپنے اہداف کی تکمیل کی منزل سے کافی دور ہے لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ قوم اور اس کے نوجوان جذبات، عزم و ہمت اور امید و نشاط کے ساتھ اس روشن راستے پر رواں دواں ہیں۔"
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اس شوق آفریں راستے پر سفر کا صحیح طریقے سے جاری رہنا امام خمینی کی شخصیت اور آپ کے مکتب فکر کے اصولوں کی تمام باریکیوں کے ساتھ صحیح شناخت پر منحصر ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا: "امام خمینی کی شخصیت کے بارے میں تحریف در حقیقت ان کے راستے کی تحریف اور ملت ایران کو صراط مستقیم سے منحرف کرنے کی کوشش ہے اور اگر امام خمینی کا بتایا ہوا راستہ گم یا فراموش ہوا یا خدا نخواستہ عمدا اسے نظر انداز کیا گیا تو ملت ایران چوٹ کھا جائے گی۔"
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ عالمی استکبار اور توسیع پسند طاقتیں اب بھی علاقے کے بڑے، دولت مند اور اہم ملک کی حیثیت سے ایران کو حریصانہ نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا: "دنیا کی دھوکے باز طاقتیں اسی وقت کبھی ختم نہ ہونے والی اس طمع سے باز آئيں گی جب ملت ایران ترقی و قوت کی اس منزل پر پہنچ جائے کہ ان طاقتوں کي امیدوں پر پانی پھر جائے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے اس نکتے کی یاددہانی کرائی کہ ملت ایران کی پیشرفت اور قوت کا دارومدار امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر کے اصولوں اور بنیادوں کے دائرے میں آگے بڑھنے پر ہے۔ آپ نے فرمایا: "ان امور کے پیش نظر امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے بارے میں تحریف کے خطرے کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، چنانچہ حکام، انقلاب سے وابستہ مفکرین، امام خمینی کے پرانے شاگردوں، امام خمینی کے راستے سے قلبی وابستگی رکھنے والوں، تمام نوجوانوں، علمی شخصیات، یونیورسٹیوں اور دینی درسگاہوں سے وابستہ افراد کو چاہئے کہ اس سنجیدہ انتباہ پر پوری طرح توجہ دیں۔"
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی شخصیت کے بارے میں تحریف کا موضوع بہت پرانا ہے جو اوائل انقلاب سے چلا آ رہا ہے۔ آپ نے فرمایا: "اوائل انقلاب سے ہی اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے ایام میں بھی دشمن کی کوشش یہ رہی کہ اپنے عالمی پروپیگنڈے میں آپ کو ایک سختگیر، خشک مزاج اور ہر طرح کے جذبات و احساسات اور نرمی سے عاری انسان ظاہر کرے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: "امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مستکبر طاقتوں کے سامنے تو قطعیت سے بھرپور ہر طرح کے تزلزل سے دور شخصیت کے مالک تھے لیکن اس کے ساتھ ہی اللہ تعالی اور خلق خدا کے سامنے اور خاص طور پر مستضعف طبقات کے تعلق سے جذبات و احساسات، نرمی دل اور محبت و الفت کا مظہر تھے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے اندر امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے بارے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر کی جانے والی تحریف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات مبارکہ کے ایام میں کچھ لوگ ایسی ہر بات اور صفت کو جو ان کی نظر میں پسندیدہ معلوم ہوتی تھی، امام خمینی سے منسوب کر دیتے تھے، جبکہ ان باتوں کا امام خمینی کی شخصیت سے کوئی ربط نہیں ہوتا تھا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: "امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ بعض لوگوں نے امام خمینی کو ایسا لبرل فکر کا انسان قرار دے دیا جس کی سیاسی، فکری اور ثقافتی روش میں کسی طرح کی قید و شرط نہیں ہے، حالانکہ یہ نقطہ نگاہ بالکل غلط اور خلاف حقیقت ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے صاف لفظوں میں کہا کہ امام خمنیی کی شخصیت کی صحیح شناخت کا واحد طریقہ آپ کے مکتب فکر کے اصولوں اور بنیادوں کا بار بار مطالعہ کرنا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اگر امام خمینی کی شخصیت کو اس روش سے نہ سمجھا گیا تو ممکن ہے کہ کچھ لوگ امام خمینی کی شخصیت کا تعارف اپنی پسند اور اپنے مزاج کے مطابق کرانے لگیں۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ عوام کے اندر امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی مقبولیت دائمی ہے، چنانچہ دشمن اس مقبولیت میں کوئی کمی نہیں لا سکا۔ آپ نے فرمایا: "یہی وجہ ہے کہ عوام کے دلوں میں بسی امام خمینی کی شخصیت کے بارے میں تحریف کا مسئلہ بیحد خطرناک ہے اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر کی بنیادوں اور اصولوں کا بار بار مطالعہ اس خطرے کا سد باب کر سکتا ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر کے اصول اور بنیادیں اسلامی تحریک کے پندرہ سال اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دس سال کے دوران آپ کے خطبوں اور تقاریر میں نمایاں ہیں۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اگر ان اصولوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھا جائے تو امام خمینی کی حقیقی شخصیت کا خاکہ تیار ہو جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر کے سات اصولوں اور بنیادوں کا ذکر کیا تاہم اس سے قبل امام خمینی کے اصولوں کے بارے میں چند اہم نکات پر روشنی ڈالی؛
1- امام خمینی کی تقاریر اور بیانوں میں بار بار ان اصولوں کا اعادہ کیا گيا ہے اور یہ امام خمینی کے مسلمّہ اصول ہیں۔
2- ان اصولوں میں صرف بعض کو بیان نہیں کیا جانا چاہئے۔
3- امام خمینی کے اصول انھیں سات اصولوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ اہل نظر افراد معینہ ضوابط کے دائرے میں رہتے ہوئے امام خمینی کے مکتب فکر کے مزید اصولوں کا بھی استنباط کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر کے سات اصولوں کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ خالص اسلام محمدی کا اثبات اور امریکی اسلام کی نفی ایک اہم اصول ہے اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیشہ حقیقی دین اسلام کو امریکی اسلام کے مد مقابل قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکی اسلام کی ماہیت کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی دو قسموں؛ سیکولر اسلام اور رجعت پسند اسلام کی جانب اشارہ کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: "امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ ایسے افراد کو جو معاشرے اور انسانوں کی سماجی سرگرمیوں کو دین سے الگ رکھنے کے قائل ہیں، ان افراد کے زمرے میں قرار دیتے تھے جو دین کے سلسلے میں پسماندہ اور رجعت پسندانہ نظریہ رکھتے ہیں کہ جو نئی فکر کے حامل انسانوں کے لئے ناقابل فہم ہے۔"
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ امریکی اسلام کی ان دونوں شاخوں کی دنیا کی استبدادی طاقتوں اور امریکا کی جانب سے ہمیشہ حمایت کی جاتی رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: "آج بھی القاعدہ اور داعش جیسی منحرف جماعتوں، نیز بظاہر اسلامی مگر در حقیقت اسلامی فقہ و شریعت سے بیگانہ گروہوں کی امریکا اور اسرائیل کی جانب سے سرپرستی کی جا رہی ہے۔" قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: "امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نقطہ نگاہ سے خالص اسلام، کتاب و سنت پر استوار اسلام ہے جس کی شناخت دشمن کی چالوں کو مد نظر رکھتے ہوئے زمان و مکان کے تقاضوں کے مطابق روشن نقطہ نگاہ کی مدد سے انسانوں اور انسانی معاشروں کی عصری ضرورتوں کے صحیح ادراک کے ساتھ اور دینی علوم کے مراکز کی سطح پر مسلمہ اور کامل علمی روشوں اور طریقوں سے حاصل ہوتی ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر کے مطابق ایک طرف درباری علماء کا اسلام اور داعش کا اسلام اور دوسری جانب صیہونی حکومت اور امریکا کے جرائم پر خاموش رہنے والا اور بڑی طاقتوں سے آس لگانے والا اسلام ہے اور دونوں کی منزل ایک ہے اور دونوں ناقابل قبول ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ جو خود کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا پیروکار مانتا ہے اسے چاہئے کہ رجعت پسند اور سیکولر اسلام سے فاصلہ رکھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے نصرت خداوندی پر توکل اور اللہ کے وعدوں کے ایفاء پر اعتماد اور دوسری جانب دنیا کی منہ زور اور مستکبر طاقتوں کے سلسلے میں عدم اعتماد کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر کا دوسرا اصول قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: "ہمارے عظیم قائد ہمیشہ اللہ کے وعدوں اور ان کی صداقت پر ایمان رکھتے تھے اور دوسری جانب عالمی طاقتوں اور مستکبرین کے وعدوں کو قطعی قابل اعتماد نہیں مانتے تھے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ نمایاں صفت اس بات کا باعث بنی کہ آپ اپنا موقف بغیر کسی تکلف کے، صریحی طور پر پوری قطعیت کے ساتھ بیان کریں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بعض استکباری حکومتوں کے سربراہوں کے خطوط کے جواب میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے مکمل قطعیت اور صراحت اور ساتھ ہی ادب و اخلاق سے لکھے جانے والے خطوط کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے توکل علی اللہ کے جذبے کو ملت ایران کی رگوں میں خون کی مانند دوڑا دیا اور ایران کے عوام بھی اہل توکل اور نصرت خداوند کے سلسلے میں اہل یقین بن گئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مستکبرین کے سلسلے میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی مطلق بے اعتمادی اور ان کے وعدوں کے سلسلے میں مکمل بے اعتنائی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: "آج ہم اس موضوع کو باقاعدہ محسوس کرتے ہوئے پوری طرح سمجھ چکے ہیں کہ کیوں مستکبرین کے وعدوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے کہ وہ نجی اجلاسوں میں کچھ کہتے ہیں اور عمومی اجلاسوں میں اس کے بالکل برخلاف بات اور عمل کرتے ہیں۔"
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اللہ پر اعتماد اور مستکبرین کے سلسلے میں بے اعتمادی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر کا مسلمہ اصول ہے۔ آپ نے فرمایا: "البتہ اس کا مطلب دنیا سے قطع تعلق کر لینا نہیں ہے کیونکہ معمول کی سطح کے محترمانہ روابط تھے مگر مستکبرین اور ان کے فرمانبرداروں پر کوئی اعتماد نہیں تھا۔"
عوامی توانائی اور قوت ارادی پر یقین رکھنا اور حکومت پر تمرکز کی مخالفت کرنا، قائد انقلاب اسلامی کے مطابق امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر کا تیسرا اصول تھا۔ قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ گوناگوں اقتصادی، عسکری، تعمیراتی، تشہیراتی اور سب سے بڑھ کر انتخاباتی امور میں، ہمیشہ حقیقی معنی میں عوام کی توانائی اور رائے پر یقین کرتے تھے اور عوام پر توجہ مرکوز رکھنے کے قائل تھے۔ قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ انقلاب کے بعد امام خمینی کی دس سالہ زندگی کے دوران جس میں آٹھ سال تک مسلط کردہ جنگ چلی، تقریبا دس انتخابات ہوئے اور حتی ایک دن کے لئے بھی ان انتخابات کی تاریخ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی بلکہ معینہ تاریخوں میں ان کا انعقاد ہوا، کیونکہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ عوام کے ووٹ، ان کے فیصلے اور افکار کا حقیقی معنی میں احترام کرتے تھے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: "یہاں تک کہ بعض مواقع پر ممکن ہے کہ عوام کا انتخاب اور ان کی تشخیص امام خمینی کی رائے کے مطابق نہ رہی ہو تب بھی امام خمینی عوام کی رائے کا احترام کئے جانے کے قائل تھے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی کے بیانوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بارہا عوام کو اپنا مالک اور خود کو عوام کا خادم قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ان جملوں سے امام خمینی کی نظر میں عوام کے بلند مقام اور عوام کے افکار و نظریات اور ان کی شراکت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ البتہ اس نقطہ نگاہ کی قدر کرتے ہوئے عوام نے ہمیشہ مطلوبہ رد عمل دکھایا اور امام خمینی رحمۃ اللہ کی انگلی کا اشارہ ہوتے ہی وہ دل و جان سے میدان میں اتر پڑتے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ امام خمینی اور عوام کے درمیان دو طرفہ رابطہ تھا، امام خمینی عوام سے محبت کرتے تھے اور عوام امام خمینی کے شیدائی تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی کے مکتب فکر کا ایک اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ داخلی مسائل کے سلسلے میں امام خمینی محرومین اور مستضعف طبقات کی مدد اور حمایت کے طرفدار تھے اور اقتصادی عدم مساوات اور اشرافیہ کلچر کی سختی کے ساتھ مخالفت کرتے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ حقیقی معنی میں سماجی انصاف کے حامی تھے، چنانچہ امام خمینی کے خطبات میں یہ موضوع ان موضوعات میں شامل تھا جن کا بار بار اعادہ کیا گیا اور یہ امام خمینی کے واضح اور روشن خطوط میں شامل تھا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: "امام خمینی ایک طرف غربت کا خاتمہ کئے جانے اور محرومیت کو دور کرنے پر زور دیتے تھے اور دوسری جانب حکام کو پر تعیش زندگی اور اشرافیہ کلچر کی جانب سے خبردار کرتے رہتے تھے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے محروم اور کمزور طبقات پر حکام کے اعتماد پر امام خمینی کی مکرر تاکید کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ کہتے تھے کہ یہ بوریا نشین اور فقرا ہی ہیں جو مشکلات اور سختیوں کا کوئی بھی شکوہ کئے بغیر میدان عمل میں حاضر ہیں جبکہ مالدار طبقات مشکلات میں زیادہ اظہار ناراضگی کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر کا پانچواں اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا: "خارجہ امور کے سلسلے میں امام خمینی آشکارا طور پر بین الاقوامی غنڈوں اور مستکبرین عالم کے مخالف محاذ میں شامل تھے اور مظلومین کی حمایت کے سلسلے میں کسی تکلف کے قائل نہیں تھے۔" آپ نے فرمایا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مستکبرین سے کسی بھی صورت میں آشتی کے لئے تیار نہ تھے اور امریکا کے لئے 'شیطان بزرگ' کی اصطلاح امام خمینی کی جانب سے ایک عجیب جدت عملی تھی۔ قائد انقلاب اسلامی نے مزید کہا کہ شیطان بزرگ کی اصطلاح کا فکری اور عملی دائرہ بہت وسیع ہے کیونکہ جب کسی کو شیطان کا لقب دیا جائے تو اس کے سلسلے میں جذبات، برتاؤ اور اقدامات اس کی شیطان صفتی کے مطابق ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اپنی زندگی کے آخری دن تک امریکا کے سلسلے میں یہی جذبہ رکھتے تھے اور اس کے لئے اگر شیطان بزرگ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے تو تہہ دل سے اس پر پورا یقین رکھتے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس کے برخلاف اسلامی انقلاب کی کامیابی کے شروعاتی دور سے ہی کچھ لوگ سرنگوں ہو چکی طاغوتی حکومت کے حامیوں کو تقویت پہنچانے کے امریکی کردار سے بے خبر تھے، لہذا ملک کے اندر امریکیوں کی موجودگی بلکہ بعض امریکی اداروں کی فعالیت جاری رہنے کے حامی تھے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اوائل انقلاب میں عبوری حکومت اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مابین بنیادی اختلاف اسی مسئلے میں تھا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ اس بات کی جانب متوجہ نہیں تھے کہ اگر امریکا کو دوبارہ موقع دیا گیا تو وہ ملت ایران پر اپنا وار ضرور کرے گا، لیکن امام خمینی اس کی جانب متوجہ تھے اور اسی بنیاد پر انھوں نے موقف اختیار کیا اور جاسوسی کے مرکز پر قبضہ کئے جانے کے مسئلے میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے اسی تناظر میں تھی۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے میں حالیہ برسوں کے دوران رونما ہونے والے بعض واقعات، بعض حلقوں کے امریکا پر اعتماد کرنے اور پھر اسی اعتماد کے نتیجے میں چوٹ کھانے کا حوالہ دیا۔ آپ نے فرمایا: "امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اسی فکر کے دائرے میں ہمیشہ امریکا کے خلاف اور اس کے سیاسی و سیکورٹی اداروں کی مخالفت پر مبنی موقف اختیار کیا، جبکہ دوسری جانب مظلوم اقوام بالخصوص فلسطینی عوام کی پوری قطعیت اور خلوص کے ساتھ حمایت کی۔"
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی اس فکر کو بنیاد قرار دیکر علاقے اور دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کا بہترین تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا: "آج عراق اور شام میں داعش کے وحشیانہ اقدامات کی ہم جتنی مخالفت کرتے ہیں، امریکا کے اندر امریکی فیڈرل پولیس کے روئے کے بھی اتنے ہی مخالف ہیں اور دونوں کے طرز سلوک کو ایک دوسرے کے مماثل سمجھتے ہیں۔"
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ ہم غزہ کے مظلوم عوام کے گرد ظالمانہ محاصرے کی جتنی مخالفت کرتے ہیں، یمن میں بے گناہ عوام پر ہونے والی بمباری کی بھی اتنی ہی مخالفت کرتے ہیں، ہم بحرین کے مظلوم عوام کے ساتھ سخت گیرانہ برتاؤ اور افغانستان و پاکستان میں عوام پر امریکا کے بغیر پائلٹ کے طیاروں کی بمباری کے بھی اتنے ہی مخالف ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے صریحی موقف کے دائرے میں مظلوم کے طرفدار اور ظالم کے مخالف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسئلہ فلسطین بدستور اسلامی جمہوریہ کی نظر میں بنیادی مسئلہ ہے اور کبھی بھی اسلامی نظام کے ایجنڈے سے اسے خارج نہیں کیا جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: "مسئلہ فلسطین ایک واجب اور لازمی اسلامی مجاہدت کا میدان ہے اور کوئی بھی قضیہ ہمیں مسئلہ فلسطین سے الگ نہیں کر سکتا۔" آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ ممکن ہے مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں کچھ لوگ اپنے فرائض پر عمل نہ کر رہے ہوں لیکن ہماری حمایت فلسطین کے عوام اور مجاہدین کے لئے جاری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے خود مختاری پر تاکید اور بیرونی تسلط کی نفی کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر کا چھٹا اصول قرار دیا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ خود مختاری کا مطلب ہے ایک ملت کی سطح پر حاصل ہونے والی آزادی۔ آپ نے اس سلسلے میں اس تضاد کو ناقابل قبول قرار دیا جو بعض افراد کے یہاں دیکھنے میں آتا ہے کہ شخصی آزادی کی تو حمایت کرتے ہیں مگر پورے ملک کی خود مختاری اور پوری قوم کی آزادی کے خلاف بیان دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "افسوس کی بات ہے کہ بعض افراد خود مختاری کی نفی کرنے کے لئے نئی نئی تھیوریاں پیش کرتے ہیں اور خود مختاری کو تنہائی اور بے وقعت چیز قرار دینا چاہتے ہیں جو بہت بڑی اور خطرناک غلطی ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے خود مختاری اور بیرونی تسلط کی نفی سے متعلق امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے حتمی نظریئے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دشمن کی بہت سی دھمکیاں، پابندیاں اور ریشہ دوانیاں اسی نظرئے کو کمزور کرنے کے لئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن نے ملکی خود مختاری کو نشانہ بنایا ہے، چنانچہ سب کو چاہئے کہ دشمن کے ارادوں کو بھانپ کر پوری طرح ہوشیار ہو جائیں۔
قومی اتحاد اور دشمن کے تفرقہ انگیز منصوبوں اور سازشوں کا مقابلہ قائد انقلاب اسلامی کے مطابق امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر کا ساتواں نمایاں اصول تھا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مسلکی اور قومیتی اختلاف کی آگ بھڑکانا دشمن کی حتمی اسٹریٹیجی ہے۔ آپ نے فرمایا : "ہمارے عظیم الشان قائد نے اسلامی انقلاب کی فتح کے فورا بعد سے اس سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے قومی وحدت اور عوام کے درمیان اتحام پر بے مثال انداز سے زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ تفرقہ انگیزی کی سیاست جاری ہے اور عالم اسلام میں اختلاف پیدا کرنا استکبار اور امریکا کی بنیادی پالیسی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس سازش کے برخلاف اسلامی جمہوریہ کا نظریہ 'امت سازی' کا نظریہ ہے جو مسلم امہ کی تشکیل کے دائرے میں ہے اور ایران اسی بنیاد پر حزب اللہ کے شیعہ بھائیوں سے جس طرح کے روابط رکھتا ہے سنی مذہب فلسطینی بھائیوں سے بھی اس کے ویسے ہی روابط ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کے دوسرے درجے کے آلہ کاروں کی جانب سے 'ہلال شیعی' کا شگوفہ چھوڑے جانے، عراق و شام میں داعش جیسے دہشت گرد گروہوں سے امریکا کی ہم آہنگی یا ان کی مدد کو استکبار کی مسلکی تنازعے کی آگ بھڑکانے کی سازشوں کے کھلے ثبوت قرار دیا اور فرمایا کہ شیعہ اور سنی سب کو چاہئے کہ ہوشیار رہیں کہ دشمن کی چال میں نہ آئیں۔ آپ نے زور دیکر کہا: "وہ تسنن جسے امریکا کی حمایت حاصل ہے اور وہ تشیع جو لندن سے دنیا میں برآمد کیا جا رہا ہے، دونوں شیطان کے چیلے اور اسکبار و مغرب کے مہرے ہیں۔"
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسی وجہ سے اس سال کے لئے 'ہمدلی و ہمزبانی' کا نعرہ منتخب کیا گیا اور دشمن کی تفرقہ انگیزی کا مقابلہ کرنے کے لئے اس نعرے پر تاکید کی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا: "اصلی دشمن اسلام کے وجود کے لئے خطرات پیدا کر رہا ہے، لہذا تمام اقوام اور مسلکوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر مستحکم محاذ کی تشکیل کریں اور دشمن کو اسلامی دنیا کے وسیع قلمرو میں کہیں بھی دراندازی کا موقع نہ دیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس بحث کے آخری حصے میں فرمایا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب میں کسی کو قریب کرنے یا اپنے سے دور کرنے کی بنیاد بھی یہی اصول تھے۔ آپ نے فرمایا کہ امام خمینی کے اصول یہیں تک محدود نہیں ہیں، بلکہ اہل نظر افراد اس میدان میں تحقیق اور مطالعہ کر سکتے ہیں تاہم یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی اپنی پسند کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب کر دے، بلکہ اس کا اظہار خیال ان اصولوں کی بنیاد پر ہونا چاہئے جو امام خمینی سے متعلق مآخذ میں دائمی طور پر اور بار بار نظر آتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں ایک اہم حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "سب جان لیں کہ دشمن کا ہدف اس ملک پر بے روک ٹوک تسلط والے دور کی بحالی ہے اور اس کی ناراضگی، مسکراہٹ، وعدے اور دھمکیاں سب کچھ اسی ہدف کے حصول کے لئے ہیں۔"
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اسلام سے دشمنی کی وجہ یہی ہے کہ اسلام اس تسلط کی دوبارہ بحالی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ آپ نے فرمایا : "دشمن اسلام کے خلاف ہے، کیونکہ اسلام اس سازش کا مقابلہ کرنے والی طاقت ہے، دشمن ملت ایران کے بھی خلاف ہے کیونکہ یہ قوم اس کے سامنے کسی کہسار کی مانند ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے امریکا کے ایک پرانے سیاستداں کے بیان کا حوالہ دیا جس میں اس سیاسی رہنما نے کہا کہ تکفیری دہشت گرد گروہوں کی مغرب کے لئے کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ اسے ایران کو اپنا اصلی دشمن سمجھنا چاہئے جو عظیم اسلامی تمدن کو معرض وجود میں لانے کے لئے کوشاں ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ یہ سوچ عالم اسلام میں مسلم امہ کی تشکیل کی ضرورت و اہمیت کو ظاہر کرتی ہے اور سب جان لیں کہ دشمن اسلامی تحریک کی پیش قدمی اور ملت ایران کی پیشرفت و ترقی کا راستہ روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا: "ملت کے اندر جو شخص جتنی زیادہ مزاحمت کرے دشمن طاقتیں اس کی اتنی ہی مخالفت کرتی ہیں، وہ انقلابی اداروں، تنظیموں اور مومن و متدین افراد کی زیادہ مخالف ہیں کیونکہ انھیں علم ہے کہ یہ عناصر دشمن کے نفوذ اور غلبے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔"
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل حجت الاسلام و المسلمین سید حسن خمینی نے اپنے خطاب میں اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی کے زائرین کا خیر مقدم کیا اور عراق، شام، یمن اور بحرین کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے اور اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ رجعت پسند عناصر نے علاقے کو آشوب کی نذر کر دیا ہے کہا کہ اسلامی دنیا بڑے تلخ واقعات سے دوچار ہے اور اس کا سبب وہ افراد ہیں جن کے دلوں میں اسلام کا بغض و کینہ بھرا ہوا ہے۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے روضہ اقدس کے متولی حجت الاسلام و المسلمین سید حسن خمینی نے کہا کہ ایک تشدد پسند جماعت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام پر اور دین اسلام کے نام پر اسلامی تمدن کو نشانہ بناتے ہوئے برادر کشی کر رہی ہے اور اس نے اغیار کی حمایت اور صیہونیوں کی سرپرستی میں اسلام کے خلاف حد درجہ منفی ماحول پیدا کر دیا ہے۔
حجت الاسلام و المسلمین سید حسن خمینی نے زور دیکر کہا کہ ایران امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی سرزمین ہے اور ساری دنیا اس ملت ایران کو آزما چکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی بھی اس ملک کو ٹیڑی نظر سے دیکھنے کی کوشش کرے گا تو مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر کے زیر سایہ یہ قوم ہرگز اس بات کا موقع نہیں دے گی اور ملک کی ارضی سالمیت اور خود مختاری کا دفاع کرے گی۔

خبررساں سائٹ برائے حفظ ونشر آثار حضرت آیت اللہ خامنہ ای

ای میل کریں