امام کا حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے مجمع سے خطاب (1)

امام کا حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے مجمع سے خطاب (1)

ایک یونیورسٹی کا آدمی اگر منحرف ہو جائے وہ ایک دکاندار سے فرق کرتا ہے وہ ایک مستری مزدور سے فرق کرتا ہے

ایک یونیورسٹی کا آدمی اگر منحرف ہو جائے وہ ایک دکاندار سے فرق کرتا ہے وہ ایک مستری مزدور سے فرق کرتا ہے۔ یہ لوگ اگر منحرف ہوں گے تو ان کا انحراف ذاتی ہو گا وہ کسی دوسرے کو منحرف نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر یونیورسٹی کا استاد منحرف ہو جائے یہ ایک آدمی منحرف نہیں ہوا ہے بلکہ ایک گروہ منحرف ہوا  ہے۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 حوزہ اور یونیورسٹی کا ایک ہی مقصد

میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو تشریف لائے تاکہ نزدیک سے ملاقات کریں اور جو باتیں میرے ذہن میں ہیں ان کو پیش کریں۔ پھر شکریہ ادا کرتا ہوں آپ نے خدمت کرنے کا احساس اپنے اندر پیدا کیا ہے اور یہ خدمتیں یقینا گراں قیمت ہیں لیکن یونیورسٹی کے اندر بنیادی چیز کچھ اور ہے۔ علماء اور یونیورسٹی والے سب ایک ہی راستے پر ہیں اور ان دونوں طبقوں کی ذمہ داری دوسروں سے کئی گناہ زیادہ ہے جیسا کہ ان کا پیشہ بھی با شرف ہے اس  لیے کہ اگر  روحانی اور اساتید یونیورسٹی کے پیشہ پر ٹھیک سے عمل کیا جائے تو انسان وجود میں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مشغلہ انبیاء کا مشغلہ رہا ہے۔ تمام انبیاء انسان بنانے کے لیے مبعوث ہوئے قرآن انسان سازی کی کتاب ہے۔  یہ پیشہ ایک نہایت با شرف پیشہ ہے۔ اور ذمہ داری کو بھی دو چنداں کر دیتا ہے۔ اس لیے کہ ان دو درسگاہوں حوزہ اور یونیورسٹی میں وہ تمام چیزیں تشکیل پاتی ہیں اور وجود میں آتی ہیں جن کی ملک کو ضرورت ہے۔


حوزہ اور یونیورسٹی کا اختلاف ایک قوم کا اختلاف ہے

اگر یہ گمان کریں کہ علم سعادت کا منشاء ہے یہ ہر صورت میں خطا ہے۔ بلکہ کبھی کبھی علم شقاوت کا منشاء بھی بن جاتا ہے۔ «چو دزدى با چراغ آيد گزيده تر برد كالا» حکیم سنائی کا کہنا ہے کہ اگر چور چراغ لے کر آئے تو سامان کو انتخاب کر کے لے جائے گا۔ اگر ایک مولوی علم رکھتا ہو لیکن ایمان نہ رکھتا ہو اس کا راستہ انبیاء کا راستہ نہ ہو تو بہت زیادہ مفاسد کا سبب بنے گا۔ اکثر یہ جو دین وجود میں آتے رہے ہیں ان کے وجود میں لانے والے ملاں لوگ ہی رہے  ہیں۔ وہ ملاں جن کے گمان کے مطابق علم، سعادت کے لیے کافی ہے۔ وہ لوگ انبیاء کے راستے پر نہیں تھے۔ اگر یونیورسٹی صرف اس بات کی تلاش میں ہو کہ طالب علموں کو صرف علم سیکھائیں معلومات کا ذخیرہ ان کے پاس جمع کریں یہ ہماری قوم کے لیے نہ صرف مفید نہیں ہے بلکہ نقصان دہ ہے۔

ایک یونیورسٹی کا آدمی اگر منحرف ہو جائے وہ ایک دکاندار سے فرق کرتا ہے وہ ایک مستری مزدور سے فرق کرتا ہے۔ یہ لوگ اگر منحرف ہوں گے تو ان کا انحراف ذاتی ہو گا وہ کسی دوسرے کو منحرف نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر یونیورسٹی کا استاد منحرف ہو جائے یہ ایک آدمی منحرف نہیں ہوا ہے بلکہ ایک گروہ منحرف ہوا  ہے۔ وہ گروہ جو ملک کو چلا سکتا ہے اور دھیرے دھیرے یہ انحراف ایک ملک کے انحراف کا سبب بن جاتا ہے۔ ایک عالم دین کا انحراف ایک آدمی کا انحراف نہیں ہے۔ ایک قوم کا انحراف ہے۔ اس بنا پر صرف یہ دو گروہ ہیں جو خدمت کر سکتے ہیں اور ملک کو نجات دلا سکتے ہیں اور اگر خدا نخواستہ ان کا راستہ منحرف ہوا تو ملک کو انحراف کا شکار بنا دیں گے۔


متحد اور منحرف عناصر میں فرق

یہ گمان نہ ہو کہ وہ لوگ جو ایمان نہیں رکھتے یہ بھی ملک کی خدمت کرتے ہیں اور کوئی فرق نہیں ان لوگوں میں جو با ایمان ہیں اور جو بے ایمان۔ و الَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ و يَأْكُلُونَ كَمَا تأكُلُ الأَنعَامُ و النَّارُ مَثوىً لَهُم جو ایمان نہیں رکھتا اس کی خوراک حیوانوں کی طرح ہے یعنی گدھے کے آگے چاہے رسول اسلام [ص] گھاس ڈالیں یا ابو جہل اس کے لیے کوئی فرق نہیں کرتا۔ اس کا کام ہے صرف کھانا۔ حیوان چاہتا ہے اس کے ساتھ نرمی کی جائے ملائم سلوک اختیار کی جائے۔ اب یہ نرمی کرنے والا چاہے حضرت علی  [ع] ہوں یا ابن ملجم ہو۔ اس کے لیے فرق نہیں کرتا اگر ابن ملجم بہتر طریقے سے اس کے ساتھ ملائم سلوک سے کام لے گا وہ اس کے ساتھ دوست ہو جائے گا۔ یہ آیت جو اس بات کو بیان کر رہی ہے یہ ایک کلی حکم ہے منحرف کو غیر منحرف سے جدا کرنے کا۔ ہم کیسے ایک منحرف انسان کو سیدھے راستے پر چلنے والے انسان سے الگ کریں۔ منحرف لوگ وہ ہیں جن کے لیے کوئی فرق نہیں کرتا کہ یہ گاڑی جو ان کے ہاتھ لگی ہے صحیح راستے سے آئی ہے یا چوری ڈھکیتی کا مال ہے۔ یا کسی کی امانت میں خیانت ہو کر اس کے ہاتھ لگی ہے یا نہیں، بلکہ امانت کی رعایت کر کے صحیح راستے سے حاصل ہوئی ہے۔ اس کے لیے یہ تمام چیزیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ اسے گاڑی چاہیے وہ گاڑی کی خوبیوں کو دیکھتا ہے یہ نہیں دیکھتا کہ کہاں سے آئی۔ جیسا کہ ایک " انعام" کے سلسلے میں یہ نہیں پوچھا جاتا کہ کہاں سے آیا۔ منحرف لوگ حیوانوں کی طرح ہیں جو یہ سوال نہیں کرتے کہ کہاں سے آیا۔ وہ صرف یہ  دیکھتے ہیں کہ کیا ہے۔ آپ جوانوں کی تربیت کرتے ہیں ایسی تربیت کریں کہ جس کے اندر تقوی ہو ایسا تقوی جس میں یہ سوال پیدا ہو کہ یہ چیز کہاں سے آئی؟۔ یہ فکر ان کو دیں۔


حوزہ اور یونیورسٹی میں اختلاف کا ایجاد کرنا

آپ یونیورسٹیوں والے اور حوزہ والے سب کا ایک پیشہ ہے دونوں کا ایک مشغلہ ہے لیکن افسوس یہ کہ یہ دونوں گروہ سماج کے مربی ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں اور ہم آج تک آپ [ یونیورسٹی کے اساتید] سے آمنے سامنے نہیں ہوتے تھے یعنی آپ لوگ ہم سے بھاگتے تھے۔ آپ ہم لوگوں کو کچھ کہتے تھے اور ہم آپ کو کچھ۔ ہم ایک دوسرے کو قبول نہیں کرتے تھے۔ آپ سے میری مراد آپ لوگ جو یہاں ہیں نہیں ہے اور مجھ سے میری مراد میں شخص نہیں ہے بلکہ آپ سے مراد تمام دانشگاہوں اور یونیورسٹیوں والے۔ اور ہم سے مراد حوزہ والے ہیں۔ لیکن گروہ بندی ایسے ہی ہو چکی تھی۔ یونیورسٹیوں میں جاتے تھے طلاب کے پاس، مسئولین کے پاس اپنا خوبصورت چہرہ دیکھاتے تھے اور ان سے کہتے تھے یہ ملاں لوگ ناسمجھ ہیں یہ ہمیں عصر حجر کی طرف لوٹانا چاہتے ہیں۔ محمد رضا خان ۱۵ خرداد سے پہلے کی باتوں میں یہ کہتا تھا یہ ملاں لوگ ہوائی جہاز میں سوار نہیں ہوتے۔ یہ لوگ ہوائی جہاز کے مخالف ہیں اصلا یہ لوگ جدیدیت کے مخالف ہیں۔ [اتفاق سے انہیں دنوں میں مراجع میں سے ایک ہوائی جہاز سے ہی مشہد گئے تھے]۔ یہ چاہتے ہیں اس زمانے کی طرف پلٹ جائیں جس زمانے میں گدھے کی سواری ہوتی تھی۔ یہ لوگ بجلی کے مخالف ہیں اور شمع کو جلانا چاہتے ہیں۔ یہ تمام متمدن آثار کے مخالف ہیں۔ [شاہ کے تربیت یافتہ لوگ] آپ کے پاس آتے تھے اور اس طرح کی باتیں کرتے تھے۔ اور ادھر سے اپنے درباری مولویوں کے پاس جاتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ یہ دیکھ رہے ہیں یہ لوگ کتنے بے دین ہیں ان کے پاس دین نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ان کو اس طریقے سے ابھارتے تھے اور یونیورسٹی والوں کی نسبت بدبین کرتے تھے  تا کہ آپس میں لگی رہے اور ایک دوسرے کو آپس میں لڑاتے رہیں۔ یہ دونوں طبقے کے لوگ سماج کے مربی ہیں دونوں کو کوشش کرنا چاہیے کہ سماج میں سدھار لائیں۔ ان دونوں کو آپس میں جدا نہیں ہونا چاہیے۔


تعلیم بغیر تہذیب کے خطرہ

حوزہ اور یونیورسٹی اگر دونوں صحیح راستے میں گامزن رہے تو قوم بھی صحیح راستے پر رہے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر ایک طبقہ مثلا تاجر خود اپنی اصلاح کرتا ہے خود نیک اور صالح بنتا ہے دوسروں سے اس کا کوئی ربط نہیں ہے۔  لیکن یہ دو گروہ ایسے ہیں کہ اگر یہ نیک اور صالح ہوں گے سماج کی اصلاح ہو گی۔ اور اگر برعکس إذَا فَسَدَ العَالِمُ فَسَدَ العَالَمُ یہ فاسد ہوں گے پورا سماج فاسد ہوگا۔ یہ عالم صرف میں ہی نہیں ہوں آپ بھی ہیں ہم سب عالم ہیں۔ آپ سب علماء کا جز ہیں اور اگر خدا نخواستہ فاسد ہو گئے عالَم فاسد ہو جائے گا۔ اور صالح رہیں گے  عالَم کی اصلاح ہو گی۔ ایک سماج کی سعادت اور شقاوت اس کے مربیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اور وہ مربی آپ لوگ ہیں۔ وہ [یونیورسٹی والے] بھی ایک طریقے سے اور آپ [علماء دین] بھی ایک طریقے سے سماج کی ترییت کا وظیفہ رکھتے ہیں۔ اگر یہ طے ہو کہ تربیت صرف علمی تربیت ہے آپ ایک ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ یہ ڈاکٹر کیسا ہونا چاہیے۔ یہ ڈاکٹر کل ایک کاسب اور تاجر ہو جائے گا۔ اس طریقے سے کہ مریض مرتا رہے گا جب تک اس کی فیس ادا نہیں ہو گی اس کو دیکھ نہیں سکتا۔ کتنا اچھا ڈاکٹر تیار ہوا ہے طب کے اعتبار سے نہایت ماہر ہے لیکن چونکہ اخلاق کے اعتبار سے صفر ہے مہذب نہیں ہے۔ متقی نہیں ہے ، خداشناس نہیں ہے، یہ ڈاکٹر مریض کو پریشان کرتا ہے آج ایک نسخہ دیتا ہے اور دوا خانہ سے طے کئے رہتا ہے کہ دوائی کو مہنگا بیچ کر اس کی کمیشن ادا کرتے رہیں۔ آج اس نسخہ نے کوئی فائدہ نہیں کیا کل دوسرا نسخہ لکھے گا۔ طبیب اچھا طبیب تھا طبابت کے اعتبار سے، لیکن تربیت میں کمزوری تھی۔ ایک انجینئر کو آپ تعلیم دیتے ہیں انجینئر اپنے علم میں بہت اچھا تھا لیکن جب مثلا ایک نقشہ دینا چاہتا ہے اس طریقے سے نقشہ پیش کرتا ہے کہ مفید اور صحیح نہ ہو لیکن زیادہ منفعت کا حامل ہو۔ اسی طریقہ سے دوسری چیزیں۔ ہماری صنف میں بھی اگر یہ طے ہو کہ یہی ملائیت ہونا چاہیے۔ یہ ملاں تو بہت اچھا ہے نہایت سمجھدار آدمی ہے کتاب اور سنت کو بہت اچھے سے سمجھتا ہے۔ لیکن اگر تقوی اس کے پاس نہ ہو یہی کتاب و سنت لوگوں کی گمراہی کا سبب بن جاتی ہے۔

(جاری ہے)

ای میل کریں