امام رضا(ع) کو یابن رسول اللہ کہنا، مامون کا دهوکا بازی

امام رضا(ع) کو یابن رسول اللہ کہنا، مامون کا دهوکا بازی

اسی طرح مامون امام رضا(ع) کو اپنی تمام دهوکا بازیوں، چاپلوسیوں یا ابن عم! یا ابن رسول ﷲ! کہنے کے باوجود زیر نظر رکهتا تها کہ کہیں قیام نہ کردیں اور اس کی بادشاہت کو ختم نہ کردیں، کیونکہ آپ(ع) فرزند رسول(ص) ہیں۔

جماران کے مطابق، تشیع کی پر مغز ومحتوا ثقافت میں متعدد اسلوب عمل بتایا گیا ہے کہ اگر صحیح انداز میں فائدہ اٹها سکے تو انسانی سعادت وسلامت کیلئے بہترین بستر وذریعے ثابت ہوسکے گا۔ ان طریقوں کا ایک نمونہ، اعیاد وشہادت کے ایام کے رسومات ہے جو شیعہ قوم میں منحصر ہے۔ خاص کر ایام محرم الحرام اور صفر المظفر کہ جو مذہبی اعمال واذکار کا عروج کے دن ہے جس میں بزرگان دین، ائمہ معصومین(ع) کی سیرت، راہ وروش زندگی اور معنوی سلوک کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔ اسی سیرت اور روش جو وحیانی الہی چشمہ سے ماخوذ ہے۔ ان میں سے ایک، مولا امام علی بن موسی الرضـا علیہ السلام، امام ہشتم کی سیرہ نظری عملی ہے۔

آغا امام رضا(ع) فرماتے ہیں: مؤمن، مؤمن نہیں مگر یہ کہ تین خصلتیں اور روشن، اپنایا ہو: ایک، اپنے پرودگار کی طرح راز پوش ہو،ـ دو، پیغمبر کی طرح لوگوں کے ساته رواداری سے کام لے اور تیسری خصلت یہ کہ امام برحق کی طرح سختی اور گرفتاری کے دوران صبر وشکیبائی کے ساته گزارے۔ (بحار الانوار، ج75،س334)

کیا یہ حقیقت اور نیک خصلتیں بلکہ صفات عالیہ، وہ چیز نہیں کہ ہم نے، ہمارے معاشرے نے کهو بیٹهے ہیں؟! آخر کیوں؟! اور کب تک؟!

آگے فرماتے ہیں: کسی کی طرف نہ دیکه مگر یہ کہ اپنے سے کہہ دو کہ وہ مجه سے بہتر اور مجه زیادہ متقی ہے۔

مولا امام علی بن موسی الرضـا اور ائمہ ہداۃ علیہم السلام کی راہ وروش، نیز باطل وظالم قوتیں جو اہل حق کے مقابل میں صف آرا ہیں، کے بارے میں امام خمینی(رح) فرماتے ہیں:

اسی طرح مامون امام رضا(ع) کو اپنی تمام دهوکا بازیوں، چاپلوسیوں یا ابن عم! یا ابن رسول ﷲ! کہنے کے باوجود زیر نظر رکهتا تها کہ کہیں قیام نہ کردیں اور اس کی بادشاہت کو ختم نہ کردیں، کیونکہ آپ(ع) فرزند رسول(ص) ہیں۔

آپ(ع) کیلئے وصیت کی گئی ہے، آپ کو مدینہ میں آزاد نہیں چهوڑا جاسکتا۔ ظالم حکام اقتدار چاہتے تهے، ہر چیز کی قربانی حکومت کیلئے دینے پر تیار تهے۔ یہ نہیں تها کہ کسی سے خاص دشمنی رکهتے ہوں۔ چنانچہ اگر نعوذ باللہ، امام(ع) درباری ہوجاتے تو آپ(ع) کا بہت احترام ہوتا۔ لوگ آپ کے ہاته چومتے۔

روایت ہے کہ جب امام(ع)، ہارون کے پاس تشریف لائے تو اس نے حکم دیا کہ حضرت(ع) کو ہماری مسند تک سواری پر لایا جائے اور اس نے بہت احترام کیا پهر جب بیت المال کی تقسیم کا وقت آیا تو بنی ہاشم کا حصہ بہت کم رکها۔ مامون نے حضرت(ع) کا احترام دیکها تها اس کو اس پر بہت تعجب ہوا۔

ہارون نے کہا: یہ بات تمہاری عقل میں نہیں آئے گی۔ بنی ہاشم کے ساته یہی برتاؤ مناسب ہے۔ ان کو فقیر رہنے دیا جائے، قید میں رکها جائے، شہر بدر کیا جائے۔ یہ ہمیشہ رنجیدہ رہیں ان کو زہر دیا جائے، قتل کیا جائے ورنہ یہ قیام کردیںگے اور ہمارے لیے زندگی دشوار کردیںگے۔

ائمہ (ع) نے صرف یہی نہیں کہ ظالم بادشاہوں، جابر حکومتوں، فاسد درباروں سے مبارزہ کیا ہو، بلکہ مسلمانوں کو ان کے خلاف جہاد پر آمادہ کیا ہے۔

 

(ولایت فقیه(حکومت اسلامى) ص151-153)

ای میل کریں