عورتوں کے نماز پڑهنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

عورتوں کے نماز پڑهنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

چونکہ نبی اکرم [ص] نے فرمایا ہے:"جس طرح میں نماز پڑهتا ہوں تم بهی اسی طرح پڑهو" کیا سجدہ کی حالت میں مرد اور عورت کی نماز میں کوئِی فرق ہے؟

پیغمبر اسلام [ص]کبهی زبانی طور پر احکام کو بجا لانے کی کیفیت بیان فرماتے تهے اور کبهی بیان کے علاوہ اپنی سیرت اور رفتار و کردار سے بهی عملا دینی احکام کو بجا لانے کی کیفیت کی تربیت دیتے تهے۔ البتہ بعض مواقع پر ان دونوں طریقوں کو ایک ساته سکهانے کی ضرورت ہوتی تهی۔ پیغمبر اسلام[ص] کی طرف سے زبانی تشریح کے علاوہ عملی طور پر تربیت دینے کے مواقع میں سے ایک نماز ہے، اس لحاظ سے آنحضرت[ص] نے فرمایا ہے:"صلوا کما رایتمونی اصلی"۔[1] "اپنی نماز کو اس طرح پڑهو،جس طریقہ سے میں پڑهتا ہوں" یعنی اپنی نماز کو میری نماز کے مطابق بجا لاو اور میری نماز آپ کے اعمال کے صحیح ہونے کا معیار ہے۔
پیغمبر اکرم[ص] کے کلام کے یہ معنی ہیں کہ آپ مکلفین، منجملہ مرد و زن نماز کے کلی اعمال وارکان، جیسے: رکعات کی تعداد، نیت کی کیفیت، قیام، قرائت، رکوع وسجود وغیرہ میں اپنی نماز کو میری نماز سے تطبیق دو۔ لیکن اس امر کے پیش نظر کہ عورتیں احکام کے بعض جزئیات کو بجا لانے میں مردوں سے فرق رکهتی ہیں، جس کی وجہ ان کی خاص جنسی حالت ہوتی ہے، اس لئے ہمیں زن و مرد کے درمیان بعض جزئیات میں فرق کے بارے میں پیغمبر اسلام[ص] اور ائمہ اطہار[ع] کے گفتار وسیرت سے معلومات حاصل کرنے چاہئے، کہ جزئیات میں یہ تفاوت صابر بن جعفی کی امام باقر[ع] سے نقل کی گئی روایت میں بیان کی گئی ہے:" جب عورت نماز کے لئے کهڑی ہوجائے تو اسے اپنے دونوں پاوں کو آپس میں ملاکر رکهنا چاہئے اور اپنے دونوں ہاتهوں کو سینہ پر رکهے اور رکوع کی حالت میں اپنے دونوں ہاتهوں کو دونوں زانووں پر رکهے اور جب سجدہ بجالانا چاہے تو پہلے بیٹهے پهر زمین پر سجدہ بجا لائے اور جب اپنے سر کو سجدہ سے اٹهانا چاہے تو پہلے بیٹهے پهر قیام کے لئے اٹهے اور جب تشہد کے لئے بیٹهے تو دونوں پیروں پر بیٹه کر اپنی دونوں رانوں کو ملا کر رکهے اور تسبیح پڑهنا چاہے تو اپنے ہاتهوں کی انگلیوں کو ملاکر رکهے، کیونکہ ان تمام امور کے بارے میں ان سے سوال کیا جائے گا۔"[2]
اس روایت کے مطابق،"صلوا کما رایتمونی اصلی" نماز کے کلیات کے بارے میں ہے کہ اس میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ لیکن بعض خصوصیات میں کچه تفاوتیں ضرور پائی جاتی ہیں، جو امام باقر[ع] کی روایت میں بیان کی گئی ہیں اور شائد امام باقر[ع] کی روایت کے آخری نکتہ سے استنباط[3] کر کے کہا جاسکتا ہے کہ جزئیات میں یہ تفاوت عورت کے عفیف ہونے اور زندگی کے تمام امور میں حتی کہ اپنے پروردگار سے گفتگو کے دوران بهی عفت کی رعایت کرنے کے پیش نظر ہو۔

 


[1]علامه حلی، حسن بن یوسف، نهج الحقّ و کشف الصدق، ص 423، بیروت، دار الکتاب اللبنانی، طبع اول، 1982م.

[2]«فَإِذَا قَامَتْ‏ فِی‏ صَلَاتِهَا ضَمَّتْ رِجْلَیْهَا وَضَعَتْ یَدَیْهَا عَلَى صَدْرِهَا وَ تَضَعُ یَدَیْهَا فِی رُکُوعِهَا عَلَى فَخِذَیْهَا وَ تَجْلِسُ إِذَا أَرَادَتِ السُّجُودَ سَجَدَتْ لَاطِئَةً بِالْأَرْضِ وَ إِذَا رَفَعَتْ رَأْسَهَا مِنَ السُّجُودِ جَلَسَتْ ثُمَّ نَهَضَتْ إِلَى الْقِیَامِ وَ إِذَا قَعَدَتْ لِلتَّشَهُّدِ رَفَعَتْ رِجْلَیْهَا وَ ضَمَّتْ فَخِذَیْهَا وَ إِذَا سَبَّحَتْ عَقَدَتْ بِالْأَنَامِلِ لِأَنَّهُنَّ مَسْئُولَاتٌ». شیخ صدوق، الخصال، محقق، مصحح، غفاری، علی اکبر، ج 2، ص 585 - 586، قم، دفتر انتشارات اسلامی، طبع اول، 1362ش.

[3]«مسئولیت و پرسش از زنان نسبت به این حرکات و کیفیت اجرایی در نماز».

اسلام کوئست نت

ای میل کریں