کیا اسلام میں مالکیت خصوصی کی تائید ہے؟

اسلام کا اقتصادی مکتب جس طرح خصوصی مالکیت کو عطیہ پروردگار اور خداداد جانتا ہے حکومتی مالکیت کے بارے میں بهی یہی نظریہ رکهتا ہے۔

جواب: قابل ذکر ہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ خصوصی اور عمومی مالکیت میں جس طرح کی مالکیت نظام سرمایہ داری اور سوسیالیسٹ میں قبول شدہ ہے اس سے مختلف ہے اور دونوں میں ایک بنیادی فرق ہے ۔ نظام سرمایہ داری ایک عمومی قاعدہ کے عنوان سے صرف مالکیت شخصی کا معتقد ہے اور مالکیت عمومی کو صرف خاص شرائط میں جب اجتماعی ضرورت اقتضا کرے، قبول کرتا ہے۔ سرمایہ داری کا نقطہ مقابل سوسیالیزم ہے جو قاعدہ عمومی کو اشتراکی مالکیت جانتا ہے اور شخصی مالکیت کو استثنائی صورت اور نادر موارد کے علاوہ قبول نہیں کرتا ہے۔ اس درمیان اسلام کا اقتصادی مکتب جس طرح خصوصی مالکیت کو عطیہ پروردگار اور خداداد جانتا ہے حکومتی مالکیت کے بارے میں بهی یہی نظریہ رکهتا ہے۔ بطور خلاصہ کہا جاسکتا ہے: اول یہ ہے کہ خصوصی مالکیت اسلام میں مورد تائید ہے۔ دوسرے اموال کی توسیع اور اضافہ اس کی دو صورتیں ہیں: ایک وقت ثروت کی زیادتی کا مقصد، ضروریات زندگی کا پورا کرنا، آبرو کی حفاظت، دوسروں کی خدمت، انجام خیرات اور نیکیاں کرنا وغیرہ ہے کہ ایسی توسیع اور اضافہ ہرگز قابل مذمت نہیں ہے بلکہ مورد تشویق و ترغیب واقع ہوئی ہے لیکن اگر دولت کی فراوانی سے مقصد، حرص وہوس، حصول لذت، جاہ و شہوت پرستی اور اس جیسی چیزیں ہوں تو ایسی دولت کی زیادتی و فراوانی اسلام اور عقلا کی نگاہ میں باعث مذمت اور موجب توبیخ و سرزنش ہے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: "یتنافسون فی الدنیا دنیہ ویتکالبون علی جیفۃ مریحہ" لوگ پست دنیا کے حصول کے لئے ایک دوسرے پر سبقت کررہے ہیں اور بدبودار و متعفن مردار کے لئے آپس میں کتوں کی طرح لڑ رہے ہیں۔ تیسرے یہ کہ جس طرح اسلام میں معنوی رشدو تکامل پر توجہ دی گئی ہے اسی طرح اقتصادی میدان میں بهی توسیع اور اضافہ پر زور دیا گیا ہے کیونکہ مادیت و معنویت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک معاشرے کی معنویت اور تمدن اس معاشرہ کے رشدو رفاہ و آسائش کا ضامن ہوسکتا ہے جس طرح اقتصادی ترقی معنویت اور تمدن کی بلندی کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ ملحوظ رہے کہ اسلام رشد اقتصادی کو انسان کی معنوی شخصیت اور استعداد کی تجلی کا وسیلہ جانتا ہے۔ چوتهے، گذشتہ نکات میں دقت اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ گرچہ انسان کی سعادت و کمال کے ارکان مسائل اقتصادی میں خلاصہ نہیں ہوتے ہیں لیکن بلا شک انسان کی سعادت کا ایک پایہ اقتصادی ترقی ہے لہذا اگرچہ ثروت و دولت کمانا اور رکهنا سعادت انفرادی اور اجتماعی کے لئے شرط نہیں ہے لیکن قطعی طور پر شرط لازم ضرور ہے۔

ای میل کریں