مرجعیت اور تقلید؛ کیا تقلید ایک قابل مذمت امر ہے؟

مرجعیت اور تقلید؛ کیا تقلید ایک قابل مذمت امر ہے؟

مرجع تقلید، فقہ میں مہارت اور شرعی منابع سے احکام الہی کے استنباط کی قدرت رکھتا ہے۔

مرجع تقلید، فقہ میں مہارت اور شرعی منابع سے احکام الہی کے استنباط کی قدرت رکھتا ہے۔

مرجعیت، ایک فقہی اصطلاح ہےکہ اس کے مقابلے میں " تقلید " کا مفہوم قرار پایا ہے؛ یعنی اگر کوئی شخص، مرجع ہے تو دوسرے لوگ اس کے مقلد ہیں۔ اس لحاظ سے مرجعیت کے مفہوم کے تجزیہ کےلئے تقلید کے معنی کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔

علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے فرماتے ہیں:

خلق را تقلید شان بر باد داد  //  اے دو صد لعنت بر این تقلید باد

یہاں پر تقلید سے مراد، دلیل کے بغیر کسی کی پیروی کرنا ہے جو ہر عاقل کے پاس مذموم ہے؛ لیکن فقہی اصطلاح میں تقلید سے مراد، کسی غیر ماہر کا ایک تخصصی امر میں کسی ماہر کیطرف رجوع کرنا ہے۔ اسی وجہ سے پہلے مفہوم کے بر خلاف جو عقلاء کی نظر میں منفی اور مذموم ہے، اس کے دوسرے معنی مکمل طور پر قابل قبول ہے اور دینی مسائل میں تقلید کے جائز ہونے کی سب سے اہم دلیل، یہی عقلائی نکتہ ہےکہ ایک غیر ماہر انسان کو تخصصی مسائل میں اس امر کے ماہر شخص کیطرف رجوع کرنا چاہئیے۔

تقلید کے تمام لفظی دلالت " فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون " اگر کسی چیز کو نہیں جانتے ہو تو اس کے عالموں سے سوال کرو؛ میں مضمر ہے اور یہی امر عقلاء کی نظر میں بھی قابل قبول ہے۔

اس توصیف کے پیش نظر، فقیہ کی مرجعیت، اس کے فقہ میں مہارت اور تخصص اور شرعی منابع سے احکام الہی کے استنباط کی قدرت ہے۔

اس موضوع پر مزید مطالعہ کےلئے مھدی ہادوی تہرانی کی کتاب " ولایت و دیانت " کیطرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

ای میل کریں