مصلحت

فقہ جعفریہ میں مصلحت کا کیا مفہوم ہے؟

جو احکام ہمیشگی ہیں ان کی مصلحت بھی مستحکم ہے

شیعہ فقہ میں احکام مصلحت کی بنیاد پر ہیں ہر وہ چیز جس کی مصلحت لازم اور ضروری ہے وہ واجب ہے ہر وہ چیز جس کا فساد قابل ملاحظہ ہو وہ حرام ہے شعیہ علماء فرماتے ہیں اسلام میں کوئی بھی واجب حکم مصلحت سے خالی سے نہیں اور کوئی بھی حرام حکم فساد سے خالی نہیں۔

تمام احکام مصالح اور مفاسد کی بنا پر ہیں،مصلحت کی دو قسمیں ہیں مستحکم اور غیر مستحکم اگر مصلحت مستحکم ہو اس کا حکم بھی مستحکم ہو گا لیکن اگر مصلحت غیر مستحکم ہو اس کا حکم بھی غیر مستحکم ہو گا۔

جو احکام ہمیشگی ہیں ان کی مصلحت بھی مستحکم  ہے اور وہ کسی خاص زمان اور مکان سے وابستہ نہیں ہیں لیکن متغیر احکام ہیں جو خاص زمان اور مکان سے وابستہ ہیں ان دو قسموں کی بنا پر پیغمبر اکرم(ص)  نے دو طرح کے احکام بیان کئے ہیں ۔

ایک قسم میں وحی اور احکام اولیہ کو لوگوں کے لئے بیان کیا ہے یہ ثابت اور ہمیشہ رہنے والے احکام ہیں جن کی مصلحت ہمیشگی ہے (مگر صرف جب ایک مہم حکم کے مقابلے میں ہوں )اسی بارے میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں دین محمد (ص) کا حرام اور حلال قیامت تک باقی رہے گا(حلال محمد حلال ابداً الى یوم القیامة و حرامه حرام ابداً الى یوم القیامة.) ( کافی؛ ج1، ص 58)

ان ثابت اور باقی رہنے والے احکام کے حلال میں ہمیشہ کے لئے مصلحت اور حرام میں ہمیشہ کے لئے مفسدہ پایا جاتا ہے امام رضا علیہ السلام  فرماتے ہیں خدا وند کے تمام حلال احکام میں مصلحت اور حرام میں مفسدہ ہے (انّا وجدنا کلمّا احلّ‏الله تبارک و تعالى ففیه صلاح العباد و بقاؤهم ... و وجدنا المحّرم من الاشیاء لا حاجة بالعباد الیه و وجدناه مفسداً داعیاً الى الفناء و الهلاک) ( علل الشرایع؛ ج 2، ص 592)

ای میل کریں