امام خمینی (رح) کے بیانات میں فطرت کے اقسام؟

انسان کے اندر غیب و شہود کے عوالم ہیں، کچھ بالفعل اور کچھ بالقوہ

امام خمینی(رح): انسان کے اندر غیب و شہود کے عوالم ہیں، کچھ بالفعل اور کچھ بالقوہ

الف: فطرت اولیہ اور ثانویہ

ان امور کو کہتے ہیں جو الٰہی فطرت کی بنیاد پر انسان کے اندر موجود ہوتے ہیں اور کمال و ترقی طلب ہیں؛ اور جو اس فطرت سے انحراف کیطرف رخ کرتا ہے وہ " فطرت ثانوی " کی بنیاد پر ہے۔

 مثلاً، اپنے بھائی یا کسی انسان کو دوست رکھنا، یہ اس کی فطرت اولیہ سے ہے لیکن دشمنی، فطرت ثانویہ ہے جو فطرت اولیہ سے انحراف کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔

ب:  فطرت اصلی اور تبعی

امام خمینی(رح) نے کمال طلبی اور اس کے فروعات کو " فطرت اصلی " سے تعبیر فرمایا اور نقص و شرور کو " فطرت تبعی " قرار دیا ہے۔

ج:  فطرت بصیرت اور فطرت رجحان

فطرت کے جن مصادیق کا تذکرہ امام (ره) کے کلمات میں ہوا ہے، وہ معرفت میں شامل ہے اور آپ اسے " فطرت عقلی " کے نام سے یاد فرماتے ہیں۔

آپ نے حدیث فطرت کی تشریح کے ذیل میں فطرت کے لغوی واصطلاحی معنی کی وضاحت کے بعد، توحید اور اللہ تعالی کا وجود، اس کا تمام صفات کمالیہ کا مالک ہونا، قیامت، نبوت اور ملائکہ پر اعتقاد نیز انزال کتب جیسے امور بلکہ تمام معارف حقہ کو فطری شمار کرتے ہیں۔ اس لئے کہ عقل حکم دیتی ہےکہ نعمت دینے والے کا شکرگزاری، ضروری ہے؛ انسانوں کا احترام و اکرام بھی ضروری ہے، یہ انسانی اقدار میں قرار پاتا ہے؛ نیز تمام صفات کمالیہ کی نسبت اللہ کی وحدانیت کی تعین، عقل نظری سے بہرہ مند ہوتے ہیں جو احکام کے مقولہ سے ہے۔

(شرح چہل حدیث، ص ۱۸۵)

د:  فطرت بالفعل اور بالقوہ

انسان کے اندر غیب و شہود کے تمام عوالم [اور فطریات] ہیں، البتہ کچھ بالفعل ہوتے ہیں اور کچھ بالقوہ۔

(صحیفہ امام، ج۱۱، ص۲۱۹)

ھ:  عام اور خاص فطرت

الٰہی فطرتیں ... ان الطاف میں سے ہیں جو اللہ رب العزت نے تمام مخلوقات میں سے صرف انسان سے مخصوص کیا ہے، دوسرے موجودات میں یا تو سرے سے یہ فطرتیں موجود نہیں ہیں یا وہ ناقص اور کم بہرہ مند ہیں [کہ جن کو "غریزہ" کہا جاتا ہے]۔

(شرح چہل حدیث، ص۱۸۰)

ای میل کریں