حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے اثبات کیلئے واقعہ غدیر سے استدلال کیوں نہیں کیا؟

حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت کے اثبات کیلئے واقعہ غدیر سے استدلال کیوں نہیں کیا؟

سب سے پہلی مرتبہ غدیر کا باقاعدگی سے اعلان، مسجد کوفہ کے فراز منبر سے، امام علیہ السلام کی ظاہری خلافت کے دور میں، آپ ہی کی زبانی ہوا تھا اور اس واقعے کی طرف لوگوں کو متوجہ فرمایا۔

تاریخی دستاویزات کی روشنی میں پیر کے روز پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم رحلت فرما گئے اور اسی دن سقیفائی جماعت کی اکثریت نے مہاجرین اور انصار کے آپسی اختلاف کے باوجود ابو بکر کی بیعت کی اور اسکے اگلے دن ابو بکر کی امامت میں مسجد النبی میں خطبہ اور نماز ادا کی لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اس میں شرکت نہیں کی، آپ(ع) پغمبر کے چچا عباس بن عبد المطلب، انکے فرزند، نیز حضور کا آزاد کردہ ایک شخص اور ایک انصاری کی مدد سے رسول اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی تجہیز اور تکفین میں مشغول رہے۔

اسی دوران پیغمبر کے چچا عباس بن عبد المطلب نے امام علی علیه السلام سے مخاطب ہوکر کہا: اے میرے بتیجے اپنا ہاتھ آگے بڑھاو تاکہ میں تیری بیعت کروں جس کی وجہ سے لوگوں کو یہ کہنے کا موقع میسر آئیگا کہ پیغمبر کے چچا نے اپنے بتیجے کی بیعت کی ہے، جس کے نتیجے میں کوئی بھی آپ کی مخالفت نہیں کرسکیں گے۔ لیکن امام(ع) نے یہ کہتے ہوئے کہ ہم پیغمبر کی تکفین و تجہیز میں مصروف ہیں، عباس بن عبد المطلب کی بات سے اتفاق نہیں کیا۔

دوسری جانب پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے امام علی علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے شفارش کی تھی کہ ان کی تکفین و تجہیز سے فارغ ہونے کے بعد قرآن کی جمع آوری تک عبا کو دوش پر نہ رکھے۔ اسی وصیت کے پیش نظر امام علی علیہ السلام، قرآن کی جمع آوری میں مصروف ہوگئے، قرآن کریم کی جمع آوری اور ترتیب کے بعد امام علیہ السلام نے اسے مسجد النبی{ص} میں لوگوں کے سامنے پیش کیا مگر لوگوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا!! امام علیہ السلام نے یہ کہتے ہوئے کہ اس قرآن کو وہ دوبارہ کبھی نہیں دیکھ پائیں گے، واپس اپنے بیت الشرف کا رخ کیا۔

جی ہاں! یہ وہی قرآن ہے جو آج بھی ہمارے ہاتھوں موجود ہے لیکن بمع تفسیر و توضیحات کے، اور وہ مصحف شریف آج امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے پاس موجود ہے اور یہ قرآنی نسخہ ظہور کے وقت امام زمان علیہ السلام کے ہاتھوں مسجد کوفہ میں آشکار ہوگا اور اسی نسخے کی بھیس پر اسلامی احکام اور تعلیمات اسلامی کا نفاذ ہوگا۔

لہذا سقیفہ میں رونما ہونے والے اجتماع کے وقت امام علیہ السلام، پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے اور کسی بھی سقیفائی اجتماع میں شریک نہیں ہوئے اور کبھی یہ فرصت پیش نہیں آئی کہ حدیث غدیر کے ذریعے مخالفین کے سامنے احتجاج کرسکیں۔

سب سے پہلی مرتبہ غدیر کا باقاعدگی سے اعلان، مسجد کوفہ کے فراز منبر سے، امام  علیہ السلام کی ظاہری خلافت کے دور میں، آپ ہی کی زبانی ہوا تھا اور اس واقعے کی طرف لوگوں کو متوجہ فرمایا۔

ای میل کریں