امام(رح) سے ایک درس / ایسی بات جس کو آپؒ نے کبهی نہیں بهلایا

کرامت انسانی پر مشتمل اس عظیم داستان کی حقیقت کو کوئی بهی رائٹر، شاعر، مصور، عارف، قوال، فقیہ اور فیلسوف اپنے لفظوں اور تصویر کے قالب میں نہیں ڈال سکتا!

ID: 37790 | Date: 2014/11/14

ظاہر سی بات ہے جب کسی سماج میں الہی اقدار کا بول بالا ہو تو  عمومی طور پر یہ بات ثقافتی لحاظ سے ایک سالم معاشرے کی تشکیل میں معاون اور مددگار ثابت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں اس معاشرے کو زیادہ سے زیادہ دوام حاصل ہوتا ہے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ اسلامی انقلاب اور اس کے بعد آٹه سالہ دفاع مقدس کے دوران وجود میں آنے والے اقدار کو عمومی سطح پر  ملک کے اندر ثقافت کی صورت میں لاگو کیا جائے۔


حضرت امام خمینیؒ کے مثالی کردار اور اس کے مقابل میں لوگوں اور خاص کر دفاع مقدس کے جانبازوں  کے اچهے رد عمل نے معاشرے کے اندر ایسے اقدار کو جنم دیا جس کی مثال پوری تاریخ میں دیکهنے کو نہیں ملتی۔ اور یقیناً ایسے اصولی اقدار جن کے ذریعے مذکورہ مقاصد کو حاصل کیا جاسکے وہی حقیقی اقدار ہیں۔


حسب معمول دوسرے میدانوں کی طرح ہمیں اس میدان میں بهی امام خمینیؒ پیش قدم ہوکر اپنے سبق آموز بیانات کے ذریعے لوگوں کی راہنمائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہم اس تحریر میں دفاع مقدس میں ایرانی خواتین کے کردار کے حوالے سے امام خمینیؒ  کے پیغام کا  ایک حصہ قلمبند کرکے قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔  


چنانچہ امام خمینیؒ  اس ضمن میں فرماتے ہیں:


"ہماری محترم خواتین نے سابقہ نظام ظلم کے تشدد کے بعد بهی اس کا مقابلہ کرتے ہوئے دنیا کے سپر پاور کے سامنے صف اول میں کهڑی ہوکر استقامت کا مظاہرہ کیا جس کی نظیر اس پہلے کسی بهی زمانے میں ہمیں دیکهنے کو نہیں ملتی اور یہاں تک کہ اس طرح کی شجاعت کا مظاہرہ مردوں کی جانب سے بهی کسی تاریخ میں نظر نہیں آتا۔


آٹه سالہ دفاع مقدس کے دوران عورتوں کی فداکاری اور جذبہ استقامت کو قلم بیان کرنے سے قاصر ہے۔ میں نے آٹه سالہ جنگ کے دوران ملت کی ان مائوں اور بہنوں کے عمل سے (کہ جن کے عزیز جام شہادت نوش کر چکے تهے) ایسے کردار کا مشاہدہ کیا ہے کہ جس کی مثال اسلامی انقلاب کے علاوہ مجهے کہیں نہیں ملتی۔


اور جس بات کو میں اپنی زندگی میں کبهی نہیں بهلا سکتا، وہ ایک جوان لڑکی کی شادی کی داستان ہے جو انہوں نے ایسے فوجی پاسدار کے ساته رچائی تهی، جس کے دونوں ہاته جنگ میں کٹ گئے تهے اور مزید بر آن اس کی دونوں آنکهوں کو بهی صدمہ پہنچا تها۔ اس شجاع لڑکی نے شادی کے موقع پر اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا تها: "اب جبکہ میں محاذ جنگ میں نہیں جاسکتی لہذا میری کوشش ہوگی کہ اس شادی کے ذریعے اسلامی انقلاب کے حوالے سے میرے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داری کو کسی حد تک انجام دے سکوں!" 


کرامت انسانی پر مشتمل اس عظیم داستان کی حقیقت کو کوئی بهی رائٹر، شاعر، مصور، عارف، قوال، فقیہ اور فیلسوف اپنے لفظوں اور تصویر کے قالب میں نہیں ڈال سکتا! یقیناً اس عظیم خاتوں کی فدا کاری اور جان نثاری کو معاشرے میں رائج معیارات کی کسوٹی پر کسی بهی صورت میں نہیں پرکها جاسکتا۔


صحیفه امام،ج16، ص194




ماخذ: جماران