حادثہ عاشورا پر تاریخی زاویہ سے ڈاکٹر مہریزی سے چند سوالات

مختلف ادوار میں مثلاً رضا خان کے دور میں یا اس سے قبل، عزاداری کا انعقاد ایک طرح سے لوگوں کی جانب سے حکومت کے خلاف احتجاج پر مبنی ہوتی تهی۔

ID: 37776 | Date: 2014/11/11

موحودہ دور میں حادثہ عاشورا کے سلسلہ میں ایک نئی دید ونظر جسے ہم انسانی زاویہ کا نام دیتے ہیں.


سوال: آپ کی نظر میں زاویہ دید میں تبدیلی کیا علم وآگاہی میں اضافہ کا سبب قرار پاتی ہے؟


ڈاکٹر: پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حادثہ میں خود اتنی ظرفیت پائی جاتی ہو اور دوسری بات یہ کہ ہمارا علم بهی زمانہ گزرنے کے ساته ساته ترقی کرتا ہے اور ہمارے لئے نئے افکار کا سہارا لینا ضروری ہوتا ہے۔


سوال: زاویہ دید کی تبدیلی میں کیا اجتماعی مسائل بهی موثر ثابت ہو تے ہیں؟


ڈاکٹر: جی ہاں! لیکن پہلے مرحلہ میں ہمیں قبول کرنا ہوگا کہ اس حادثہ میں اتنی ظرفیت پائی جاتی ہے۔


مختلف ادوار میں مثلاً رضا خان کے دور میں یا اس سے قبل، عزاداری کا انعقاد ایک طرح سے لوگوں کی جانب سے حکومت کے خلاف احتجاج پر مبنی ہوتی تهی۔


سوال: ان زاویوں کی تبدیلی کیا حکومت کی جانب سے پہلے سے متعین سیاست میں دخیل نہیں ہوتی؟


ڈاکٹر: رابطہ پایا جاتا ہے، بسا اوقات حکومت کچه ایسا فیصلہ کر لیتی ہے کہ جس کے بعد لوگ اپنے اعتراض کی بنا حادثہ عاشورا پر رکهتے ہیں، دوسری طرف یہ بهی ممکن ہے کہ حکومت اسی حادثہ عاشورا کو لوگوں کے لئے ایک بازیچہ بنا دے۔ لہذا ہمیں خیال رکهنا ہوگا کہ کہیں لوگ، حکومتیں اور احزاب اس حادثہ کے پیغامات سے سوء استفادہ نہ کر بیٹهیں۔ عاشورا ایک انسانی واقعہ ہے جس میں انسانی تعلیمات بهی پائی جا سکتی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ حادثہ لوگوں کے ہاته کا کهلونا بن کر رہ جائے۔


سوال: حادثہ عاشورا ایک خاص متن کا حامل ہے تو کیا اب بهی اس میں نئے زاویہ دید کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟


ڈاکٹر: جی ہاں! عاشورا میں اس کی گنجائش یقیناً ہے۔ کسی ایک مولف کی کتاب پر متعدد تفاسیر نہیں لکهی جاتی ہیں لیکن مثلاً قرآن کریم کی مختلف تفاسیر تحریر ہوئی ہیں۔ حادثات بهی کچه اسی طرح ہیں۔ وہ حادثات اور متون جن کا کسی اعتبار سے غیب سے ربط پایا جاتا ہے اور جن کی محوریت ومرکزیت ان شخصیات کو حاصل ہے جن کا تعلق وحی الہی سے ہے؛ ان میں یہ گنجائش بقی رہتی ہے کہ مختلف نئے زاویہ دید سے دیکها جائے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ افراد جن کا تعلق عالم غیب سے ہے انہیں حادثہ کی ہر جہت سے خبر ہوتی ہے لہذا اگر ان سے قریب رہنے والے افراد اس حادثہ کے کسی گوشہ کو نہیں دیکه سکے اور سو سال بعد اس کی جانب متوجہ ہوئے، یہ صحیح ہے کیونکہ فاعل اور کرنے والا اس حادثہ کے تمام جزئیات سے آشنا ہے مثال کے طور پر، ہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم، خداوند عالم نے نازل فرمایا جو ہر چیز کا علم رکهنے والا ہے۔ اب اگر کوئی اس کی تفسیر لکهے تو عین ممکن ہے کہ اسے مطابقت رکهتی ہو لیکن اگر کوئی عام انسان کوئی کتاب لکهے تو ضروری نہیں کہ اس کی متعدد تفاسیر لکهی جائیں۔


سوال: حادثہ عاشورا میں اس کی گنجائش پائی جاتی ہے، اس ادعا پر آپ کی دلیل کیا ہے؟


حجت الاسلام: پہلے تو یہ ثابت کرنے ہوگا کہ فاعل، انسان اور زندگی سے آگے بڑه کر وہ کچه مشاہدہ کر رہا تها جس کی اس کے معاصر افراد کو اطلاع نہ تهی۔ ہمارا اعتقاد ہے کہ امام حسین علیہ السلام، معصوم اور پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے نائب ہیں اور انہیں ایک طرح سے عالم غیب سے مرتبط جانتے ہیں لہذا اب اگر کوئی امام معصوم کسی عمل کو انجام دیتا ہے تو اس کی نظر کافی وسیع ہوتی ہے لہذا اس حادثہ میں اس بات کی گنجائش پائی جاتی ہے۔ یہ ہم ہیں کہ ہمارے لئے زمانہ گزرنے کے ساته علم و تجربہ میں اضافہ ہوتا ہے اور ہم ایک بات سے دوسری بات تک پہنچتے ہیں۔ مثال کے طور پر جس وقت ایران میں تیل کا انکشاف ہوا، تیل سے حاصل ہونے والی چیزوں میں پٹرول، ڈامر، ڈیزل اور اس جیسی چیزیں تهیں لیکن آج انہیں چیزوں کی تعداد ۱۵ ہزار تک پہنچ چکی ہے! تو معلوم ہوا کہ اس درمیان اس تیل میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ ہمارا علم ترقی کر چکا ہے۔ دینی قضایا اور حادثات بهی کچه اسی طرح ہیں۔ کربلا وہی کربلا ہے لیکن ضرورت ہی نہیں کہ اس میں کسی طرح کی جعلی اور ساختگی بات کا اضافہ کیا جائے بلکہ نیا زاویہ دید انسان کے لئے وسعت فکر پیدا کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ذاکر، خطیب یا نوحہ خوان پڑهتا ہے: "الآن ان کسر ظهری" تو، ایک تو بهائی کی شہادت امام حسین علیہ السلام کے لئے کتنی سخت گزری، یہ سمجه میں آتا ہے لیکن جو شخص اجتماعی مسائل پر گہری نگاہ رکهتا ہو اسے سمجه میں آتا ہے کہ اس جملہ سے امام عالیمقام لوگوں کو اپنے احساسات سے غافل نہیں رکهنا چاہتے تهے۔


دوسری مثال یہ کہ جب امام(ع) مکہ سے عازم کربلا ہوتے ہیں، فرماتے ہیں: «جو بهی بلا ومصیبت کو گلا لگانے اور سختی وپریشانی سے نپٹنے نیز خون دینے کے لئے تیار ہے کل ہمارے ساته آ جائے» اس سے ایک تو امام کا پیغام سمجه میں آتا ہے لیکن اس سے بڑه کر جو بات قابل توجہ ہے وہ یہ کہ امام حسین(ع) کسی چیز کو پنہاں نہیں فرماتے اور دنیاوی لالچ دلا کر کسی کو اپنا ہمراہی نہیں بنانا چاہتے تهے۔


سوال: آپ نے تین ملاک ومعیار کا ذکر فرمایا کہ ان تینوں کے مطابق حادثہ عاشورا کے سلسلہ میں نئے زاویہ دید کا اضافہ ممکن ہے۔ آج جبکہ حادثہ عاشورا کو تقریباً ۱۳۵۷ سال گزر چکے ہیں تو مذکورہ تین معیارات یعنی تاریخی شواہد سے سازگاری، دین مبین اسلام کے اہداف کا پاس ولحاظ اور اس سے سازگاری نیز حادثہ عاشورا کے مختلف پہلوئوں پر محیط ہونا؛ تو کیا ان زاویوں کی تبدیلی میں ان کا خیال رکها گیا ہے؟


ڈاکٹر مہریزی: تاریخ نے حادثہ کربلا کے عاطفی، حماسی اور انسانی زاویہ کی نفی نہیں کی ہے۔ یہ تینوں زاویے آپس میں متعارض بهی نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ قرار پاتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک زاویہ کی نفی تمام حادثہ عاشورا کی نفی کا پیش خیمہ قرار پاتی ہے۔ مثال کے طور پر عاشورا کو اگر عاطفی نگاہ سے دیکها جائے تو اس سے حماسی پیغام کے حصول میں مددگار ثابت ہوگا۔


میرے خیال میں ائمہ اطہار علیہم السلام نےحادثہ عاشورا کو جو زیادہ اہمیت دی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حسینیت کا چراغ اور حادثہ عاشورا ہمیشہ روشن وجاودان رہے اور در حقیقت یہی ایک چراغ، ظلم سے مقابلہ کرنے کی طاقت عطا کرتا رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گذشتہ برس بعض مراجع عظام نے عزاداری کے سلسلہ میں محرم کو مختلف عشروں میں تقسیم کرنے کی مخالفت کی تهی کیونکہ اس سے عاشورا کمرنگ ہو سکتا ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے جس پر عزادار انجمنوں کے سرپرستوں کو خاص توجہ دینی ہوگی۔


الســلام علیک یا ابا عبداللہ وعلی الارواح التی حلّت بفنائک۔۔۔


 


بشکریہ جماران