امام خمینی)رح) کی زندگی سے ایک درس

خدا نے امام حسین(ع) کو جو نبوت وولایت کی یادگار تهے، قیام کرنے پر مامور فرمایا تاکہ اسلام اور امت مسلمہ کی حفاظت کی خاطر اپنی اور اپنے عزیزوں کی قربانی پیش کرے تاکہ آنے والے زمانے میں آپ کے مقدس لہو سے اسلام کی آبیاری ہونے کے ساته ساته وحی الہی کو بهی محفوظ کیا جاسکے۔

ID: 37774 | Date: 2014/11/11

حضرت سید الشہداء(ع) کے لہو کے طفیل میں دین اسلام کی حفاظت


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: "حسین منی و انا من حسین" (حسین مجه سے ہے اور میں حسین سے ہوں)۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شان میں یہ جملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امام حسین علیہ السلام سے لگاو کو بیان کرنے کے ساته  ساته، اس کردار کو بهی واضح کررہا ہے جو آنے والے زمانے میں امام حسین علیہ السلام دین اسلام کی حفاظت کیلئے انجام دینے والے ہیں جس کی ذمہ داری امام حسین علیہ السلام کو سونپی گئی ہے اور اسی جملے کے پیغام کو حضرت امام خمینی(رح) نے اپنی تیز بین نگاہوں کی روشنی میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ « و انا من حسین » یعنی " حسین میرا ہے اور میری بقاء حسین سے ہے" (صحیفه امام، ج‏13، ص330)


ایضــاً اس بات کی طرف بهی اشارہ ہے کہ دشمنوں کی سازشوں سے کسی بهی صورت میں غافل نہیں ہونا چاہئے اور ضرورت کی صورت میں جان کی بازی لگانے سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔


جس طرح خمینی کبیر(رح) کے پروانوں نے انقلاب اسلامی کے آغاز سے انقلاب کی کامیابی تک بلکہ دفاع مقدس کے دوران (دشمن کی جانب سے تهوپی گئی آٹه سالہ جنگ) بهی امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر گامزن رہے تاکہ دنیا کے گرویدہ  اور مفاد پرست عناصر  اسلامی انقلاب کے ساته وہ کهیل نہ کهیل سکیں جو بنی امیہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے آئین کے ساته کهیلا تها۔


امام خمینی(رح) فرماتے ہیں:


" اگر عاشورا اور خاندان نبوت کی فداکاری نہ ہوتی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور آپ کی تمام زحمات اس زمانے کی طاغوتی طاقتوں کے ہاتهوں نابود ہوکر رہ جاتی۔ اگر عاشور کے دن امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی نہ ہوتی تو یہ بات یقینی تهی کہ سفیانی فکر کے لوگ پهر  افکار جاہلیت کو  اسلامی سماج میں پهیلاتے ہوئے وحی الہی کی صورت میں نازل ہونے والی الہی تعلیمات کو مٹا چکے ہوتے اور اس کی جگہ دور جاہلیت کے افکار کو پهر سے زندہ کیا ہوتا  اور یزید اسی سلسلے کی ایک کڑی کا نام تها جو بت پرستی اور جاہلیت کے شاہکار کے طور پر وحی کے فرزندوں کو شہید کرکے اسلام کی بساط کو لپیٹنا چاہتا تها اور اسی لئے اس نے صراحت  کے ساته اعلان کیا کہ « لا خبر جاء و لا وحى نزل »  (یعنی اللہ کی طرف سے کوئی خبر آئی اور نہ ہی وحی کا نزول ہوا ہے!!)


اگر خاندان رسول کی قربانی نہ ہوتی تو قرآن اور دین اسلام کا کیا انجام ہوتا؟


یہ اپنی جگہ ایک سوال کے طور پر باقی ہے، لیکن خدا کا ارادہ یہ تها اور یہی ہے کہ ہر حال میں اسلام کی حفاظت کرتے ہوئے قرآن کریم کو قیامت تک، معجزہ جاوید بناکر باقی رکهے اور فرزندان وحی جیسے شہدا کے خون سے اسلام کی آبیاری ہوتی رہے اور زمانے کے نقصانات سے محفوظ رہے۔


اسی لئے خدا نے امام حسین علیہ السلام کو جو نبوت وولایت کی یادگار تهے، قیام کرنے پر مامور فرمایا تاکہ اسلام اور امت مسلمہ کی حفاظت کی خاطر اپنی اور اپنے عزیزوں کی قربانی پیش کرے تاکہ آنے والے زمانے میں آپ کے مقدس لہو سے اسلام کی آبیاری ہونے کے ساته  ساته وحی الہی کو بهی محفوظ کیا جاسکے"۔(صحیفہ امام، ج14، ص406)


 


بشکریہ جماران