دس جلدوں پر مشتمل استفاءات اور ان کے جوابات

«اجتهاد» و «استفتاء» شیعی لغت میں خاص اہمیت کے حامل الفاظ ہیں۔ ہزار سال پہلے بهی شیعہ حضرات فقہاء ومجتہدین سے اسفتائات کرتے تهے اور علماء کے فتاوی ان کے ایمان کو جلا بخشتے تهے۔

ID: 37342 | Date: 2014/10/11

مندرجہ ذیل سطور میں آپ اس دس جلدی مجموعہ سے آشنا ہوں گے جس میں امام خمینی(رہ) نے فقہی سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔ یہ مجموعہ ان پچاس جلدی مجموعہ میں سے ہے جسے حجۃ الاسلام والمسلمین جناب محمد کاظم تقوی، موسسہ تنظیم ونشر آثار امام خمینی شعبہ قم کے مدیر تحقیقات – نے ضبط تحریر میں لائے ہیں۔


ائمہ اطہار علیہم السلام ،علم پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وارث قرار پائے اور ان ہستیوں نے قرآن کریم اور اہلبیت علیہم السلام نیز ثقلین پر اعتقاد کامل رکهنے والوں کو زیور تعلیم سے آراستہ فرما کے انہیں علوم الہی کا حامل و عالم قرار دیا۔ فروع دین اور احکامات الہیہ نیز حلال وحرام کے میدان میں، ائمہ معصومین علیہم السلام نے خود اپنے زمانہ میں بهی اسلام کے نفوذ اور سوال کرنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کے پیش نظر اور بسا اوقات براہ راست ائمہ ہدیٰ(ع) سے ملاقات اور زیارت کا امکان نہ ہونے کی وجہ سے اپنے خاص شاگردوں سے فرمایا کہ لوگوں کے سوالات کے جواب دو: «اجلس فی مسجد المدینة وأفت الناس فانی اُحب أن یری فی شیعتی ملک» (وسائل الشیعه، 20 / 116)


اسی زمانہ سے احکام الہیہ میں مجتہدین اور فقہاء کے ذریعہ فقاہت و استنباط واجتہاد کی داغ بیل پڑی جو مسلمانوں کی طول تاریخ میں مختلف نشیب وفراز کے ساته جاری وساری رہی ہے۔


«اجتهاد» و «استفتاء» شیعی لغت میں خاص اہمیت کے حامل الفاظ ہیں۔ ہزار سال پہلے بهی شیعہ حضرات فقہاء ومجتہدین سے اسفتائات کرتے تهے اور علماء کے فتاوی ان کے ایمان کو جلا بخشتے تهے۔


امام خمینی(رہ)  سن چالیس ہجری شمسی سے لے کر ستر کے آخر یعنی تقریباً تیس برس تک دنیائے شیعیت کے ایک بزرگ مرجع تقلید شمار ہوتے تهے۔ بالخصوص امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد آپ کی مرجعیت مزید پُر رونق ہوئی، دنیا کے گوشہ وکنار سے آپ کے دفتر کی جانب کثیر تعداد میں سوالات آتے تهے جن کے جوابات کے لئے امام راحل کے زیر نظر ایک ٹیم کار فرما تهی۔


اگر چہ امام خمینی(رہ) سے ہونے والے تمام استفتائات کا آرکائیو موجود نہیں ہے اور یقیناً ایک بڑی تعداد ان سوالات کی خود سوال کرنے والوں کے پاس موجود ہوگی لیکن ۷۴۲۴ اسناد میں سے کہ جن میں ۱۲۸۳۷ سوالات ہیں، دس جلدوں پر مشتمل فقہی مسائل کا مجموعہ اشاعت کی منزل سے پہلی بار گزرا اور پہلی بار موسوعہ امام خمینی(رہ) کی پچاس جلدوں میں ۳۱ سے لے کر ۴۱ جلدوں پر محیط قرار پایا جو ۱۳۹۳ ہجری شمسی کے موسم بہار میں منظر عام پر آچکی ہیں۔ اس مجموعہ کے بعض خصوصیات کی جانب ہم ذیل میں اشارہ کریں گے:


۱: اس مجموعہ کا اصل منبع ومآخذ وہ مدارک واسناد ہیں کہ جن کی اصل یا فوٹو کاپی ادارہ تنظیم ونشر آثار امام خمینی(رہ) کے آرکائیو میں موجود ہیں۔


۲: کچه عرصہ قبل جامعہ مدرسین کے شعبہ نشر واشاعت نے امام خمینی(رہ) کے استفائات پر مشتمل تین جلدی کتب شایع کی تهیں۔ جن میں سے ایک جلد خود امام(رہ) کی حیات میں اور دو آپؒ کی رحلت کے بعد، جو اس دس جلدی مجموعہ میں شامل ہیں۔


۳: اس مجموعہ کے بعض استفائات صحیفہ امام نامی ۲۲ جلدوں پر مشتمل کتب میں پہلے شایع ہو چکے ہیں جو اس مجموعہ میں بهی قابل مشاہدہ ہیں۔


۴: مقلدین حضرات کے سوالات کے جوابات زیادہ تر اس مخصوص ٹیم نے دئیے ہیں جو اس کام کے لئے مخصوص تهی۔ لیکن حضرت امام خمینی(رہ) بذات خود ان مسائل کو ایک ایک کر کے قرائت فرماتے اور ضرورت کے وقت اصلاح انجام دیتے نیز اپنی مہر ثبت فرماتے ان میں سے بعض آپ کی دستخط کے ساته بهی ہیں۔ لہذا یہ کہا جانا چاہئے کہ یہ دس جلدی مجموعہ صرف ان اسناد کو شامل ہے جو امام خمینی(رہ) سے مستند ہے اور براہ راست جن پر آپ کی نظر تهی اور ان استفائات کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے جن میں اگر چہ آپ کی مہر ثبت ہے اور آپ کی اجازت سے یہ کام انجام پایا۔ انشاء اللہ آئندہ مستقل طور پر اس سلسلہ میں نیا کام انجام پائے گا۔


۵: امام خمینی(رہ) سے کئے جانے والے ان استفتائات میں امانتداری کا مکمل پاس ولحاظ رکها گیا ہے؛ مقلدین کے سوالات اور امام بزرگوار کے جواب بطور کامل ذکر کئے گئے ہیں اور فقط تصحیح یا سوال کرنے والوں کے اسامی حذف کئے گئے ہیں تا کہ ان کی ذاتی اور پرسنل معلومات منظر عام پر نہ آسکیں۔


۶: بعض استفتائات کہ جو پہلے بهی منظر عام پر آچکے ہیں اور جن میں ناشرین نے فتوی کی وضاحت یا عبارت کی اصلاح کے لئے امام راحل کے جواب میں تصرف کیا ہے جن کی تشخیص قارئین کے لئے آسان کام نہیں اور جن کے ذیل میں امام امت کی مہر بهی ثبت ہے؛ ہم نے اپنی ذمہ داری کے تحت ان موارد کو ان کی پہلی حالت پر پلٹا دیا ہے۔


۷: اس مجموعہ میں استفتائات کی ترتیب تحریر الوسیلہ کی کتب، ابواب اور مسائل کے مطابق ہے۔ اگر چہ بعض فصول میں تحریر الوسیلہ کے اندر کوئی بهی استفتاء موجود نہیں ہے۔


۸: اس مجموعہ کی ترتیب و تدوین کا کام انجام دینے والوں نے تحریر الوسیلہ میں موجود عناوین کے علاوہ کچه دوسرے عناوین کا بهی اضافہ کیا ہے تا کہ بات مکمل طور پر واضح ہو سکے۔


۹: وہ استفتائات جو تحریر کے مسائل کے ضمن میں بیان نہیں ہوئے ہیں اور نئے مسائل شمار ہوتے ہیں انہیں نئے عنوان کے ساته تحریر کی اسی فصل کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے۔


۹: وہ استفتائات جو کسی بهی صورت تحریر الوسیلہ کی کتب اور فصول کے ذیل میں نہیں آتے انہیں اس مجموعہ کی دسویں جلد میں الگ عنوان کے ساته بطور جدا بیان کیا گیا ہے۔


۱۰: اس مجموعہ کے ۷۴۲۴ سند میں سے ہر ایک سند، ایک بار بطور کامل ذکر ہوئی ہے اور اس ضمن میں پہلے سوال کے اعتبار سے مناسب جگہ پر قرار دی گئی ہے۔ کچه اس طرح کہ پہلا سوال اور دیگر سوالات جو اسی فصل سے مربوط تهے انہیں کچه ضخیم حروف کے ساته اور بقیہ سوالات کو جو اس فصل سے مربوط نہیں تهے باریک حروف میں تحریر کئے گئے ہیں۔


۱۱: وہ سوالات جو اصل سند کے ضمن میں باریک حروف میں نقل ہوئے ہیں، اپنی مناسب جگہ پر ضخیم حروف میں ذکر ہوئے ہیں۔ البتہ قابل ذکر ہے کہ اس کی ابتدا میں ایک خاص علامت کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس طرح قارئین اصل سند تک با آسانی دسترسی پیدا کر سکتے ہیں۔


۱۲: ہر سوال کا الگ الگ نمبر پڑا ہوا ہے۔ ہر سوال کے شروع میں یہ نمبرز قابل غور ہیں۔


اس مجموعہ کی دسویں جلد میں باب دیات کے بعد تحریر الوسیلہ میں موجود جدید فقہی مسائل سے متناسب دیگر مسائل جیسے حکومت کے قوانین، ٹریفک رولس، انکم تیکس، عزاداری، خواتین کے اجتماعی حقوق، ورزش، اسلامی تعلیمات وغیرہ کو صفحہ نمبر ۴۴۴ سے ۷۷۵ تک ذکر ہوئے ہیں۔ آخری استفتاء عربی زبان میں ذکر ہوا جس میں ظالم حکومتوں کے اموال میں تصرف سے متعلق سوال دریافت کیا گیا ہے، جس کے ضمن میں امام نے فرمایا تها: «موقوف علی اذن الحاکم الشرعی».


اس مجموعہ کو منظر عام پر لانے والے جن علماء ومحققین نے برسوں محنت کی، ہم ان کی سلامتی کی دعا کے ساته بزرگ مرجع حضرت امام خمینی کی روح کو شاد باش عرض کرتے ہیں اور خداوند کریم سے ان بزرگوار کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اہلبیت علیہم السلام کے ساته محشور فرمائے۔



منبع: جماران