حضرت امام خمینی(رہ)کا مقصد اسلام کا غلبہ و سرفرازی: اسداللہ بهٹو

ہم ایران کے اسلامی انقلاب کو شیعہ کے بجائے اسلامی انقلاب سمجهتے ہیں۔ یہ اسلامی انقلاب الحمد اللہ آج تک برقرار ہے، ہمیں خوشی ہے، اللہ اسے مزید قائم و دائم رکهے۔

ID: 37330 | Date: 2014/10/08

پاکستان کی جماعت اسلامی کے رہنما اسداللہ بهٹو نےکہا ہے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی(رہ) کامقصد امریکہ، اسرائیل اور دیگر استعماری و استکباری طاقتوں سے مقابلہ اور اسلام کا غلبہ و سرفرازی تها۔


انہوں نے کہا کہ جمہوریت مسلسل جدوجہد کا نام ہے، تبدیلی کیلئے مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے، بعض اوقات کئی کئی دہائیاں بیت جاتی ہیں منزل تک پہنچنے کیلئےاور اس دوران کئی نسلیں گزر جاتی ہیں۔ ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ انقلاب کے اوائل میں محمد علی رجائی وزیراعظم تهے، پارلیمنٹ میں بم دهماکہ کیا جاتا ہے، وزیراعظم، اسپیکر سمیت درجنوں اراکین پارلیمنٹ شہید ہو جاتے ہیں، لیکن وہاں کسی قسم کی کوئی ایمرجنسی نافذ نہیں کی گئی۔ اس بات کا کریڈیٹ امام خمینی ﴿رہ﴾ کو جاتا ہے، ان کی وہاں اسلامی جمہوریت کیلئے کوششوں کو جاتا ہے۔ امام خمینی ﴿رہ﴾ نے وہاں کوئی عبوری حکومت قائم نہیں کی بلکہ فوری طور پر انتخابات کا اعلان کیا۔


جماعت اسلامی سنده کے صدراسد اللہ بهٹوکا کہنا تها کہ اس وقت واقعاً صورتحال انتہائی افسوسناک ہے مگر میں سمجهتا ہوں کہ مسلمانان عالم کے اندر فکری وحدت، فکری ہم آہنگی موجود ہے، وہ فرقہ واریت کے خلاف ہیں لیکن سوائے ایک آده اسلامی ملک کے، ہمارے تقریبا تمام مسلمان ممالک کے حکمران امریکا کے ایجنٹ اور پٹهو ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمیں یہ اختلاف نظر آتا ہے۔


انهوں نے مزید کہا: استعمار پاکستان میں شیعہ سنی جهگڑا کرانا چاہتا ہے۔ فرقہ واریت کو جنم دے کر وہ چاہتا ہے کہ جب ایران کے خلاف کوئی پابندیی لگائے، یا اسرائیل کی جانب سے ایرانی ایٹمی پروگرام پر جارحیت کی جائے تو سنی یہ کہے کہ ہمارا کیا واسطہ یہ تو شیعوں پر ہوا ہے۔ اسی طرح جب پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر امریکہ پابندیاں لگائے یا حملہ کرے تو وہاں کے عوام یہ سوچے کہ ہم تو شیعہ ہیں، اگر پڑوس میں ہوا ہے تو ہم کیا کریں۔ مگر ہم ان تمام سازشوں سے مقابلہ کرتے ہوئے وحدتِ امت کے ذریعے امریکا، اسرائیل سمیت تمام سامراجی، طاغوتی قوتوں کو ناکامی سے دوچار کرینگے۔


مجهے یاد ہے کہ جب ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہو رہا تها تو پاکستان میں امام خمینی رحمة اللہ علیہ نے دو نمائندے بهیجے تهے، جن میں سے ایک بعد میں ایران کے وزیر خارجہ بهی بنے۔ دونوں نمائندوں نے آ کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کیلئے امام خمینی (رہ)شریف لا رہے ہیں۔ اس وقت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے نہ صرف ان کا استقبال کیا تها بلکہ ان کی اسلامی حکومت کو پاکستان نے سب سے پہلے تسلیم بهی کیا تها۔


ہم ایران کے اسلامی انقلاب کو شیعہ کے بجائے اسلامی انقلاب سمجهتے ہیں۔ یہ اسلامی انقلاب الحمد اللہ آج تک برقرار ہے، ہمیں خوشی ہے، اللہ اسے مزید قائم و دائم رکهے۔


اسلامی نظام حکومت اور سیاست و حکومت کو اسلام کے مطابق بنانے کیلئے امام حسین عالی مقام (ع) نے سب سے بڑی قربانی دی ہے کہ یہاں پر اسلامی نظام ہونا چاہئیے۔ امام حسین (ع) کے قیام کے وقت لوگ نمازیں بهی پڑه رہے تهے، روزے بهی رکه رہے تهے، حج بهی کر رہے تهے۔ لیکن اسلامی نظام نہیں تها، اسلامی احکامات کو تبدیل کیا جا رہا تها، اس لئے امام حسین (ع) نانا (ص) کے دین کی بقاء اور اسلامی نظام حکومت کیلئے کهڑے ہو گئے اور سب سے بڑی قربانی دی۔ اصل میں یہ استعمار، استکبار، طاغوت کا فلسفہ ہے کہ دین و سیاست جدا ہیں۔ اسی لئے ہم امام خمینی (رہ) کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے عملی طور پر ایک کامیاب اسلامی نظام حکومت، اسلامی ریاست کا قائم کر کے دکهائی ہے۔


ہم اتحاد امت اور وحدت اسلامی کے ذریعے عالم اسلام اور مسلمین کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں ان سب کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی (رہ) نے فرمایاتها کہ فقہ جعفری سے تعلق رکهنے والے شیعہ، حنفی، حنبلی، مالکی اور شافعی یہ پانچوں ایک مکے کی طرح ہیں، پانچ انگلیاں جب مل جائیں گی تو ایک مکا بنے گا اور انشاءاللہ یہ اتحاد امت کا مکا ہے جو سامراج اور طاغوت کے جبڑے کو توڑ دے گا۔