امام خمینی ؒ کا گهر لوگوں کی مشکلات دور کرنے اور اسلامی انقلاب کی ترقی کا مرکز

امام خمینی ؒ کا گهر صرف زندگی گزارنے کیلئے ایک مسکن نہیں تها بلکہ لوگوں کی مشکلات برطرف کرنے اور اسلامی انقلاب کی ترقی کا ایک مرکز اور لوگوں کے عبادی اور شرعی امور انجام دینے کا آفس بهی تها کبهی درس کیلئے یہ مدرس ہوجاتا تو کبهی انقلاب کا مرکز قرار پاتا اور کبهی اس سے امام باڑہ اور مسجد کا کام لیا جاتا تها۔

ID: 36947 | Date: 2014/09/02

امام خمینی ؒ  کا  گهر جو آپ نے قم میں رہائش کے دوران کرایہ پر لیا یا خریدار تها وہ '' یخچال قاضی'' نامی محلے میں  واقع ہے اور یہی گهر اب ''بیت امام '' کے نام سے مشہور ہے اور مختلف افراد کی زیارت اور دیدار کا مرکز ہے۔


 یخچال قاضی کا گهر تقریباً سن ١٣٣٥ ه ش (١٩٥٦ء) میں خریدا گیا تها اور اس سے پہلے قم میں امام ؒ  کی ملکیت کے عنوان سے کوئی گهر نہیں تها۔ امام ؒ  جب قم میں تهے تو اسی معمولی گهر میں زندگی گزار رہے تهے۔ یخچال قاضی میں موجود گهر کی قیمت تیرہ ہزار تومان تهی جو ''خمین'' میں موجود آبائی میراث کے عنوان سے ملنے والی ملک کے فروخت سے ادا کی گئی تهی، اس کی مساحت تقریباً ٣٠٠ میٹر مربع ہے اور جب امام ؒ  ترکیہ میں جلاوطن ہوگئے تو یہ گهر آپ کے اہل وعیال کے اختیار میں تها لیکن اہل وعیال کے ساته نجف اشرف ہجرت کرنے کی صورت میں امام ؒ  کی بهائی (آیت اﷲ پسندیدہؒ) کے حوالے ہوا۔
یخچال قاضی کا گهر تقریباً سو سال پہلے بنایا گیا تها اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ اس میں دو طبقے ہیں ایک سرداب اور دوسرا ہمکف، گلی کے برابر میں۔ اس عمارت کے جنوب میں اس کا آنگن ہے اور شمال، مشرق، مغرب کی سمت میں سائباں ہے اور اس کے بیچ میں زینہ کا راستہ ہے جو عمارت کو بیرونی (شرقی) اور اندرونی (مغربی) دو حصوں میں تقسیم کردیتا ہے، عمارت کے باہری حصہ میں ایک بڑا سا کمرہ ہے جو برسوں تک امام ؒ کے شاگردوں اور
چاہنے والوں کی مہمانی کرتا رہا ہے۔
امام ؒ کی ملکیت سے متعلق سند میں باغ قلعہ نامی محلہ آتا ہے مغرب کا ایک ایران شناس ''کابوشینکی'' امام کے گهر کی اس طرح توصیف کرتا ہے:ٰ
(امام) خمینی پہلے اپنی بیوی اور پانچ بچوں کے ساته ایک چهوٹے گهر میں جو کہ پتلی اور ناہموار سڑک پر واقع تها، زندگی گزارتے تهے کہ اس کے درمیان سے پانی کی نہر بهی بہتی تهی۔ (شاہنشاہ ،ص٧)
قم کی توسیع اور خیابان معلم کی بنا کے ساته امام ؒ  کا گهر سڑک کے کنارے ہوگیا اور اس لحاظ سے امام ؒ کے گهر سے حضرت معصومہ ؑ کے حرم تک کا فاصلہ مختصر ہوگیا۔
امام خمینی ؒ  کا گهر صرف زندگی گزارنے کیلئے ایک مسکن نہیں تها بلکہ لوگوں کی مشکلات برطرف کرنے اور اسلامی انقلاب کی ترقی کا ایک مرکز اور لوگوں کے عبادی اور شرعی امور انجام دینے کا آفس بهی تها کبهی درس کیلئے یہ مدرس ہوجاتا تو کبهی انقلاب کا مرکز قرار پاتا اور کبهی اس سے امام باڑہ اور مسجد کا کام لیا جاتا تها۔ سن ١٣٤١ ه ش (١٩٦٢ء) میں صوبائی اور ملکی انجمن کے قوانین کے خلاف ایک تقریر کی۔
اسی سال ٢٠ آذر ماہ (٩ دسمبر) کو کوتوالی کے روساء اور ساواک امام ؒ کے گهر آئے امام ؒنے ان کی پرواہ کئے بغیر اپنی تقریر کو جاری رکها۔ سن ١٣٤٣ه شمسی (١٩٦٤ء) کے ابتدائی دنوں میں حکومتی افواج نے امام کی تقریر میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی جو خود امام ؒ کے گهر میں ہو رہی تهی جب ان کی سازشوں کی خبر امام کے کانوں میں پہنچی تو آپ نے خطباء اور مقررین کے ذریعہ خبردار کیا کہ اگر کسی نے مجلس یا گهر کے پروگرام کو خراب کرنے کی کوشش کی تو ہم لوگوں کو اس کے خلاف یلغار کیلئے ابهار دیں گے۔


امام خمینی ؒ  کی یخچال قاضی والے مکان میں آخری تقریر سن ١٣٤٣ه ش (١٩٦٤ء) میں ''کیپچولیشن'' (ایسا قانون کہ جس میں حق قضاوت کو سلب کرلیا جائے) کے خلاف ہوئی تو اس کی صبح کو لوگوں کا مختلف گروہ امام ؒ کے گهر آیا تاکہ ان کی تقریر سنے۔ امام کی تقریر کلمہ استرجاع (انا ﷲ وانا الیہ راجعون) سے شروع ہوئی اور یہی وہ تقریر تهی جس میں آپ نے فرمایا تها:


''مجهے سخت صدمہ ہے... میں اذیت محسوس کر رہا ہوں۔ ایران کی کوئی عید نہیں ہے اور اس سال عید کے ایام کو ایام عزا میں تبدیل کردیا گیا، ہمیں ان لوگوں (حکمرانوں) نے بیچ ڈالا ہے۔ ایران کی عظمت اور شان کهو چکی ہے...''


اس تقریر کے کچه دنوں بعد ١٣ آبان (٤ نومبر) کے دن امامؒ کے گهر پر حملہ کیا گیا اور آپ کو گرفتار کر کے ترکیہ میں جلا وطن کردیا گیا۔
بے شک اگر یخچال قاضی کے اس سادہ اور مٹی کے بنے مکان کو زبان دے دی جاتی تو اس کی ایک ایک اینٹ ہم سے امام خمینی ؒ کے تہجد، شب زندہ داری اور امام کے دلی جذبات کی عکاسی کرنے والی آتشی تقریروں کی حکایت کرتیں۔