حضرت علی علیہ السلام کی مظلومیت تاریخ کے لئے ایک درس کی حیثیت رکهتی ہے: سید حسن خمینی

سید حسن خمینی: کل تک جو شمشیر بکف تهے، برا کہتے تهے یا پهر سکوت کی ردا اوڑهے تهے، وہی انقلاب کے حامی بن گئے؛
امام خمینی(رہ) نے جب ذات الٰہی کی مدد اور اہلبیت اطہار علیہم السلام سے توسل کے ذریعہ جنگ کا آغاز کیا تو سوائے ذات حق تعالیٰ کےکسی پر آپ کو بهروسہ نہ تها۔

ID: 36443 | Date: 2014/07/22

سید حسن خمینی:


امام خمینی(رہ) کو سب سے زیادہ نقصان ان سے پہنچا ہے جو جنگ کے دوران نفاق کی نقاب میں یا خاموشی اختیار کئے ہوتے تهے اور انقلاب کی کامیابی کے اس انقلاب کے حامی بن کر ابهرے۔


کل تک جو شمشیر بکف تهے ،برا کہتے تهے یا پهر سکوت کی ردا اوڑهے تهے ،وہی انقلاب کے حامی بن گئے ؛امام خمینی( رہ) نے جب ذات الٰہی کی مدد اور اہلبیت اطہار علیہم السلام سے توسل کے ذریعہ جنگ کا آغاز کیا تو سوائے ذات حق تعالیٰ کےکسی پر آپ کو بهروسہ نہ تها۔


شہر قزوین کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسن خمینی نے کہا:امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی مظلومیت تاریخ کے لئے ایک درس کی حیثیت رکهتی ہے ۔خداوند عالم نے گویا یہ حادثات ہونے دئے تا کہ لوگ دیکه اور سمجه سکیں کہ ہمیشہ اس قسم کے مظالم ہوتے رہے ہین۔لیکن اس کے باوجود ہمیشہ نام علی سر چڑه کر بولتا ہے۔


مرقد امام خمینی(رہ) میں ہونے والی مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے جناب حسن خمینی نے اہلسنت کی معتبر کتب سے امیرالمومنین کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا:آج ان روایات سے امیرالمومنین کی عظمت مزید نکهر کر سامنے آئی ہے۔


کنز العمال نامی کتاب کے حوالہ سے ایک روایت ذکر کرتے ہوئے موصوف نے اضافہ کیا :اس کتاب میں ایک روایت نبی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہے جس میں آنحضرت نے فرمایا:« حب علی یأکل الذنوب کما تأکل النار الحطب»


یعنی جس کسی کے دل میں محبت علی پائی جائے گی ،اسے یہ محبت گناہوں سے اسی طرح پاکیزہ بنا دے گی جس طرح آگ لکڑی کو جلا کر راکه کر دیتی ہے۔یا پهر یہ حدیث جس میں ارشاد ہوا:« عنوان صحیفه المؤمن یوم القیامه حب علی ابن ابی طالب»


قیامت کے روز ہر مومن کے نامہ عمل میں سر فہرست محبت علی لکهی ہوگی۔


سید حسن خمینی نےفضیلت علوی میں دیگر متعدد احادیث کی جانب اشارہ کرتے ہوئےکہا:اہلسنت کی بعض متعبر کتب میں امیرالمومنین کے لئے وہی تعبیرات استعمال ہوئی ہیں جو شیعہ کتب میں جناب زہرا اور امام حسن و امام حسین علیہم السلام کے لئے بیان ہوئی ہیں۔اہلسنت کی معروف روائی کتاب سنن ابن ماجہ کا ذکر کرتے ہوئے موصوف نے کہا:اس کتاب میں حضرت علی کے سلسلہ میں ایک تعبیر ملی جو ہماری کتب میں سرکار سید الشہداء علیہ السلام کے لئے نظر آتی ہے۔اس روایت میں پیغمبر اعظم فرماتے ہیں:«علی منی و انا منه»


یا وہ روایت جو جناب زہرا کے لئے ملتی ہے: « فاطمه بضعة منی، من آذاها فقد آذانی»نبی اعظم کی زبانی اس قسم کی تعبیر امیرالمومنین کے سلسلہ میں نظر آتی ہے :«من آذی علیا فقد آذانی»


سید حسن خمینی نے اہلسنت کی ایک معتبر اور مشہور تاریخی کتاب «تاریخ دمشق» کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں آیا ہے:«یا علی انت منی و انا منک»اس روایت میں نبی اکرم امیرالمومنین کو خطاب کر کے فرمایا علی تم مجه سے اور میں تم سے ہوں۔اس تعبیر کے ساته«انت منی بمنزلة هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی» یہ روایت نقل ہوئی ہے۔بعض اہلسنت نے اس روایت میں تحریف کرتے ہوئے ہارون کے بجائے قارون لکها ہے۔


اپنی گفتگو کے دوسرے حصہ میں موصوف نے حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کو مظلومیت بهری زندگی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا:امیرالمومنین نے متعدد مقامات پر اپنی مظلومیت کا ذکر فرمایا ہے۔مثال کے طور پر معاویہ کا وہ خط جس میں اس نے لکها تحا آپ کو وہ دور یاد ہوگا جب آپ کے گلے میں رسی کا پهندا ڈالا گیا اور آپ کو اسی طرح گلی گلی کوچہ کوچہ کهینچا گیا جس طرح اونٹ کو  گهسیٹا جاتا ہے۔ابن ابی الحدید ؛سنی عالم اس خط کے جواب میں امیرالمومنین کا خط ذکر کرتے ہیں جس میں آپ نے معاویہ کو لکها :تو میرے مضحکہ اور تذلیل کے در پی تها لیکن تو نے میری مدح کی ،مجهے رسوا کرنے کی سوچ رہا تها لیکن تو خود رسوا ہوا ۔مسلمان جب تک وہ اپنے دین میں شک نہیں کرتا، اگر مظلوم واقع ہو تو کوئی عیب نہیں ۔


حسن خمینی نے امیرالمومنین کی مظلومیت کو شیعوں کی میراث بتاتے ہوئے عراق ،شام اور فلسطین میں ہونے والے مظالم کا ذکر کیا ۔


یادگار امام نے امام خمینی(رہ) کی مظلومیت کے بارے میں کہا:جس روز امام بزرگوار نے جنگ کا آغاز کیا ،انہیں شاہ وقت کے کارندوں سے اتنا نقصان نہ پہنچا جتنا اپنوں سے۔بعض افراد امام کی ہمراہی سے کنارہ کش رہے لیکن جب امام راحل کا یہی انقلاب کامیابی سے ہمکنار اور لوگوں کے درمیان مقبولیت کا سبب بنا تو وہ انقلاب کے حامی نظر آئے ۔امام خمینی(رہ) نے ذات خدا کے علاوہ کسی پر بهروسہ نہیں کیا۔


سید حسن خمینی کی تقریر کا اختتام ان کلمات پر ہوا:امیرالمومنین کی مظلومیت کا عالم یہ تها کہ کوفہ کے حالات کچه ایسے بنا دئے گئے تهے کہ بعد شہادت علی لوگ یہ دریافت کرتے کہ آیا علی نماز بهی پڑهتے تهے؟


خدایا تجهے تیرے اولیاء کی قسم ہمیں ولایت علوی کے قدردانوں میں شمار فرما۔


خدایا جنہوں نے انقلاب کی برکتوں سے فائدہ اٹهایا لیکن خیانت کار قرار پائے ،مالک ان کی ہدایت فرما۔


اس پروگرام میں آیۃ اللہ موسوی بجنوردی،آیۃ اللہ محمدی تاکندی،شہر قزوین کے گورنر جناب مرتضیٰ روزبہ ،حجۃ الاسلام علیخانی کے علاوہ دیگر متعدد علماء ،مسئولین بهی شریک ہوئے۔