سو سالوں میں ملت ایران کے تحریکوں کا ایک دوسرے سے (تاریخی اور سیاسی) موازنہ کیجئے!

ID: 36270 | Date: 2015/09/11

جواب: ملت ایران کی پہلی شجاعت مندانہ تحریک کا آغاز ۱۲۷۰ ه ش )۱۸۹۱( میں تنباکو تحریک کے واقعہ سے ہوا۔ یہ قیام تنہا ایک انگریزی کمپنی کو تمباکو کی خرید و فروخت کا لائسنس دینے کے بعد عمل میں آیا جس کے نتیجے میں ملک کی تمباکو کی خرید و فروخت کا حق صرف اسی انگریزی کمپنی کو تها، شاه وقت (ناصر الدین شاه) نے تنباکو کی خرید و فروخت کا امتیاز ایک ناچیز مبلغ کے عوض ایک انگریزی کمپنی کو دے دیا اور یہیں سے ملک کے اقتصادی امور میں خارجی استعمار اور اغیار کی مداخلت شروع ہوگئی۔ بیدار اور روشن فکر افراد اور بالاخص ملک کے متدین طبقے نے جرائد اور تقریروں کے ذریعے شاہ کے اس عمل کی مذمت کی اور لوگوں کو عمومی ہڑتال کی دعوت دی ۔ یہاں تک کہ مرجع عظیم الشان میرزائے شیرازی بزرگ کے پاس شکایات اور میمورنڈم ارسال کئے اور اس طرح سے وہ مرجع عظیم الشان اس سازش سے باخبر ہوا اور آپ نے یہ فتوی صادر کیا کہ آج تمباکو کا استعمال امام زمانہ سے جنگ کے حکم میں ہے۔ اس فتوی نے دشمن کے تمام منصوبوں پر پانی پهیر دیا اور شاہ قاچار کو معاہدہ ختم کرنے پر مجبور کیا۔ یہ تحریک اپنی تمام اہمیت اور تحریک کے محرکین کے احترام کے باوجود چنداں موثر واقع نہ ہوئی اور استعماردروازے سے تو باہر نکلا لیکن پهر کهڑکی سے اندر آگیا۔ اس کے بعد استعمار کی یکے بعد دوسری سازش کا آغاز ہوا یہاں تک کہ ملت ایران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور قیام مشروطہ کے نام سے ۱۹۰۶ء میں ایک قیام کی بنیاد پڑی۔ اس قیام میں لوگ تاسیس عدالت خانہ کے عنوان اور سرانجام تاسیس مجلس شورائے ملی کے عنوان سے اٹه کهڑے ہوئے اور طولانی جد و جہد کے بعد ظاہری طور پر سہی اپنے اہداف کے تحقق میں کامیاب ہوئے لیکن کچه عرصہ بعد ظلم وجور کے پرورده افراد نے جو استعمار کے مہرے اور فری میسن کا مرکز اور فری میسن تنظیموں کا جز تهے مجلس کی کرسیوں پر قابض ہوگئے۔ )فراموشخانہ و فرامانسوری دور استبداد کے اس خوفناک قید خانہ سے کنایہ ہے جس میں قیدی جانے کے بعد پهر مرنے کے بعد ہی باہر آتا تها (اور ملکی کی پارلیمنٹ پر جبراً قابض ہوگئے اور ایک بار پهر سے استعمار نے اپنی مکروہ صورت انہیں ظلم وجور کے پرورده افراد جو بظاہر مشروطہ خواہ تهے، نفوذ کرکے دکهائی اور ان لوگوں کے لئے جو انقلاب میں مارے گئے تهے اور قربانیاں دی تهیں تاریک دور کی تاریخ دہرائی۔


باجودیکہ اس تحریک کی بنیاد آیۃ اللہ خراسانی، آیۃ اللہ نوری اور دوسری علمی اور سیاسی شخصیات نے رکهی تهی تنہا بے نتیجہ ہی نہیں رہا بلکہ ا س کا برعکس نتیجہ برآمد ہوا اور خاندان قاچار کے خاتمہ کے مقدمات فراہم ہوئے اور اس کی جگہ ایک ظالم پہلوی خاندان نے لے لی جو ہر طرح کی شرافت سے خالی تها۔


پہلوی خاندان بروئے کار آیا اور اس نے تقریباً ۶۰ برس ۱۲۹۹ ه ش  مطابق )۱۹۲۰م  (کی بغاوت سے انقلاب تک کہ ۱۳۵۷ ه ش مطابق ) ۱۹۷۸م (میں کامیاب ہوا، ملک پر حکومت کی بڑی بڑی شخصیات کو قید میں ڈال دیا اور ہزاروں انقلابیوں کو تاریک و نمناک قید خانوں اور گہرے اور تاریخ تہہ خانوں میں ڈال دیا اور ان پر ہر طرح کے ظلم و ستم کو روا رکها گیااور بہت سارے مجاہدین کو آدم کش جماعت کے حوالے کردیا کہ ان کو موت کے گهاٹ اتار دیں۔


پہلوی خاندان کے دور حکومت میں ایران کے لوگوں نے ایک روحانی مجاہد مرحوم آیۃ اللہ کاشانی کی روحانی قیادت اور ایک قومی شخصیت ڈاکٹر محمد مصدق کی قیادت میں اپنی شجاعانہ تحریک کا آغاز کیا تاکہ اس ملک میں پهر سے آزادی و استقلال واپس آئے۔ ان کے تحریک کا آغاز تیل کی صنعت کو ملی کرنے کے عنوان سے ہوا اور اس مقابلہ میں ان کو فی الجملہ کامیابی بهی ملی لیکن اس تحریک کو بهی ۲۸/ مرداد ۱۳۴۲ )۱۹/اگست ۱۹۵۳ء( کی بغاوت میں کچل دیا گیا اور دوسری بار درنده صفت ظالم پہلوی "سیا" اور "موساد" کی مدد سے ملک پر مسلط ہوگیا۔ ایسا تسلط کہ ملک کی تاریخ میں ان کی نظیر بہت کم ملتی ہے۔ محمد رضا پہلوی نے اپنے پورے دور حکومت میں ایران کی ثروت، ارضی منابع اور طبیعی محصولات کو استعماری ممالک بالخصوص امریکا کے اختیار میں دے دیا اور اغیار کو ملک کے تمام مقدورات پر مسلط کردیا۔


آخر کے سو برس میں جو حوادث وواقعات رونما ہوئے اور اس مدت میں عوامی تحریکیں چلی ہیں ان کا جائزه لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اور یہ بات یقین کے ساته کہی جاسکتی ہے کہ تین مذکورہ تحریکوں میں باوجودیکہ اہمیت کی حامل تهیں اور مفید نتائج بهی برآمد ہوئے پهر بهی تینوں تحریکیں بنیادی نہ تهیں۔


دوسرے الفاظ میں مذکورہ تینوں تحریکوں کو فساد (جو ایک ظالم حکومت کے پرچم کے نیچے غیر دینی حاکمیت سے عبارت ہے) کی جڑ محفوظ تهی۔ اور صرف اس کی ظاہری شکل وصورت تبدیل ہوتی رہی تهی جبکہ ایرانی مسلمانوں کے چوتهی تحریک میں فساد کی جڑ کہ وہی شہنشاہی محور تاناشاہی غیر الہی حکومت تهی کا خاتمہ ہوگیا۔ اور اس بوسیدہ ویرانہ کی جگہ ایک بنیادی اور جدید انقلاب اور نظام نے لی۔


چوتها انقلاب ایک مکتبی، عوامی اور بنیادی انقلاب تها جس کی بنیاد پر اس صدی کے عظیم مرد امام خمینی کے ہاتهوں رکهی گئی۔ ۱۳۴۱ ه ش  )۱۹۶۲م(سے حضرت امام نے ظلم و جور اور سامراج مخالفت تحریک کا آغاز کیا اور سامراج کے نوکر ملک ایران کے پیکر میں تازہ روح پهونک دی۔


اور یہاں کی عوام نے ۱۷برس کی مدت میں مختلف طریقوں اور گوناگوں وسائل سے اسلامی اہداف و مقاصد کے تحقق جو اور اس ملک کے مقدرات سے استکبار کے ہاتهوں کو قلم کرنے کی خاطر فداکاری اور جانبازی کی وہ عظیم مثال قائم کی جو تاریخ میں بے نظیر ہے۔ اس عظیم تحریک کی قیادت کرنے والا خود بهی ایک واقعی مجاہد  تها اور اس کو اس راہ میں قید و بند اور جلاوطنی کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا اپنے عزیز بیٹے کی قربانی دینی پڑی اور تمام خطرات کا سامنا کیا سرانجام ایران اسلامی کی باایمان و مجاہد ملت نے ایک لاکه سے زیادہ شہید اور مفلوج لوگوں کی قربانی دے کر ۲۲ بہمن ۱۳۵۷ ه ش) ۱۱ فروری ۱۹۷۸م ( کو مکمل کامیابی حاصل کی اور ایک نئے انقلاب کی تاریخ رقم کی اور نظام الہی کی حاکمیت میں دنیا کی قوموں اور حکومتوں کے سامنے ایک نئی فصل کا آغاز کیا )


تبیان سایٹ سے ماخوذ ہے