اگر کسی نظریے یا فکر کی بنیاد رکهنی ہو کہ جس کے بارے میں یہ اُمید ہو کہ وہ طولانی مدت کیلئے تشنہ افراد کی سیرابی اورتربیت کا انتظام کرے تو اِس امر کیلئے ضروری ہے کہ اِس نظریے یا فکر کی بنیادیں رکهنے والے افراد بنیاد رکهنے کے عمل میں مندرجہ ذیل نکات کو اہمیت دیں:
۱۔کام، نظریہ اور فکر ’’جامع افراد او مانع اغیار‘‘ ہویعنی اُس کی جامعیت تمامیت اورکاملیت کی حامل ہو اور ساته ہی دوسرے نظریات و افکار کے مقابلے میں اُ س کا مکمل دفاع کرنے کی صلاحیت رکهتے ہوں۔
۲۔کام، نظریہ اورافکارکا حق و حقیقت سے قریب تر ہو۔
۳۔کام، نظریہ اورافکار‘دینی تعلیمات کی عمق ،وسعت اوراُفق سے مکمل ہم آہنگ ہو۔
۴۔کام، نظریہ اورافکار‘ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہو۔
۵۔کام، نظریہ اورافکار ‘تمام شعبہ ہائے زندگی کے بنیادی اُصولوں سے متصادم نہ ہو۔
۶۔کام، نظریہ اور افکار ‘زمانے کی طولانی مدت اورنشیب و فراز میں آنے والے بحرانوں سے نمٹنے اور اُن کا راہ حل تلاش کرنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہو۔
۷۔کام، نظریہ اورافکار ‘حالات حاضرہ کے تقاضوں کے عین مطابق ہوں تا کہ لچک اور فکر کی پختگی کے ساته اپنی حیات کا سفر جار ی رکه سکے۔
۸۔کام، نظریے اورافکار کے بانی حضرات کو بهی چاہیے کہ وہ اپنی طبیعی زندگی کے بعد اُس کام ، نظریے اور فکر کی ہدایت و رہنمائی کیلئے ایسے افراد کو جمہوری روشو ں سے چن سکیں جو اُس کام ، نظریے اور افکار کے اعلیٰ مقاصد سے مکمل ہم آہنگ ہوں۔یا وہ کم از کم ایسے نظام کی بنیاد رکه دیں کہ جس سے ذریعے آنے والے افراد اُس کام،نظریے اور فکر کو اُس کی راہ سے منحرف نہ کر سکیں۔
۹۔کام، نظریے اور افکار کے بانی حضرات اپنی مدت کے ختم ہونے کے اِ س کام، نظریے اور فکر کی مسلسل اسکریننگ ،ہر زمانے میں انحرافی مسائل سے صفائی،لاحق فکری جراثیموں سے تطہیر،انحرافی نظریات سے اُن کی دوری اور مبتلا ہوجانے کے بعد اُنہیں لاحق خطرات سے معالجے کو یقینی بنانے کیلئے ایسی تدابیریں کریں کہ جس سے اُس کام ،نظریے اور فکر کے پیروکاروں کو ذہنی آسودگی حاصل ہو سکے۔
۱۰۔مذکورہ کام ،نظریے اور فکر سے وابستہ افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِس کام، نظریے اور فکر کی مکمل پیروی نیز اِس کے تحفظ کی راہ میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔لیکن یہ اُسی صورت میں ممکن ہے کہ جب اِن افراد کو اِ س کام ،نظریے اور فکر کی حقانیت اور صداقت پر پورا پورا یقین و اطمئنان ہو۔
۱۱۔دوسری جانب اِس کام ،نظریے اور فکر کو بهی چاہیے کہ وہ اپنی قداست وپاکیزگی ،سچائی، حق وحقیقت سے قریب تر ہونے نیز الٰہامی و آسمانی ہونے اورآستانہ وحی سے قربت رکهنے کے ساته ساته اپنے پیروکاروں کی تربیت کیلئے تمام عصر ودہر میں ایسے افراد تربیت کریں تا وہ ہر مشکل گهڑی ، کڑے وقت اور مصیبت زدہ حالات میں اُن اُسووں اور آئیڈیلوں کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔ یہ کام صرف اور صرف آسمانی زندہ مکتب ہی کر سکتا ہے جو ’’حَیٌّ لا یَمُوْتُ‘‘سے ’’مُحْیِ الاَمْوَات‘‘ کا حکم لے کر نازل ہوتا ہے۔یہ مکتب صرف دین اسلام ہی ہے۔
۱۲۔کسی کام ،نظریے یا فکر کا لانے والے ہی در حقیقت اُس حیات کو انسانوں میں ڈالنے کا سبب بنتے ہیں جو اللہ کی جانب سے حیات کے مالک ہوں۔اِسی لیے تو کہتے ہیں کہ ’’اللّٰهمَّ اجْعَل مَحْیَایَ مَحْیَ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ مَمَاتِیْ مَمَاتَ مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ ‘‘یعنی خدا میری زندگی کو محمد ؐ وآل محمد ؑ کی زندگی اور میری موت کو اُن کی موت جیسی قراردے۔یہی وہ افراد ہیں جو ’’ یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُولِ اِذَا دَعَاکُم لِمَا یُحْیِیْکُمْ‘ ‘کی آیت کے مطابق حیات دینے والے ہیں۔
شفقنا