امام خمینی (رح) کی نظر میں طاقت کا مفہوم

ID: 83618 | Date: 2025/07/26

امام خمینی (رح) کی نظر میں قدرت کا مفہوم
تحریر: معصومہ ناصری


شہادت طلبی کی ثقافت نے معنوی طاقت کے احیاء میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس ثقافت نے افراد اور معاشرے میں ایک گہرا انقلاب برپا کر کے روحانیت اور خدا سے رابطے کو زندہ کیا، اور انفرادی، دینی و سماجی اخلاقیات کو آگاہی، ترقی اور بلندی کی طرف ہدایت بخشی۔شہادت طلبی، جو ایک گہری اعتقادی بنیاد کی علامت ہے، طاقت کو سخت (Hard Power) سے نرم (Soft Power) میں تبدیل کرنے میں اہم ذریعہ بنی۔ یہ تصور، جو الٰہی اصولوں اور سیرۂ عاشورا سے ماخوذ ہے، انقلاب سے قبل کے زہریلے ماحول میں فراموش کر دیا گیا تھا؛ لیکن اسلامی انقلاب اور امام خمینی (رح) کی قیادت میں ایک بار پھر زندہ ہوا اور سماجی تعاملات کے ذریعے پھیلتا چلا گیا۔


طاقت امام خمینی کی نظر میں


ایران کا اسلامی انقلاب، بیسویں صدی کی نمایاں سیاسی و سماجی تبدیلیوں میں سے ایک ہے جو اپنی جڑوں، مقاصد اور جدوجہد کے طریقوں میں دیگر انقلابات سے مختلف تھا۔ امام خمینی (رح) خود اس بات پر زور دیتے تھے کہ:اسلامی انقلاب تمام انقلابات سے جدا ہے؛ پیدائش، جدوجہد کے طریقے اور قیام کے محرکات میں بھی۔
اس انقلاب کی دو نمایاں خصوصیات اس کا اسلامی و روحانی پہلو اور تمام طبقات کی بھرپور شرکت تھی۔ اسلامی انقلاب، مادی انقلابوں کے برعکس، ایک کثیرالجہتی، اقداری و معنوی تحریک تھی جو مادی و روحانی صلاحیتوں کے اظہار کا سبب بنی۔ اس کی بنیاد عقیدہ، ایمان اور معنویت پر رکھی گئی اور اسے انقلابِ اقدار کہا گیا۔


طاقت کا تصور اس انقلاب میں ایک نئے زاویے سے متعارف ہوا جو کہ روایتی نقطہ نظر سے بالکل مختلف تھا۔ سابقہ نظام میں طاقت کا مطلب مادی اور ظاہری عوامل تھے جیسے طاقتور فوج، مضبوط معیشت اور عالمی طاقتوں کی حمایت۔ مگر امام خمینی (رح) کے نزدیک، حقیقی طاقت خدا پر توکل، خود اعتمادی اور عوام پر یقین سے جنم لیتی ہے۔


ایسے میں شہادت طلبی کی ثقافت نے معنوی طاقت کے احیاء میں مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ ثقافت، عاشورا کی سیرت سے متأثر، انقلاب سے قبل کے ماحول میں دب چکی تھی؛ لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی اور امام خمینی (رح) کی قیادت سے یہ دوبارہ معاشرے میں زندہ ہو گئی۔


جنگ تحمیلی کے دوران، شہادت طلبی کی یہ روح، خدا سے وابستگی اور کربلا کی یاد سے جُڑی ہوئی، ایرانی قومی گفت و گو کا حصہ بن گئی۔ اس نے عوام کو وہ قوت عطا کی جس سے وہ اُن طاقتوں کے خلاف کھڑے ہو گئے جو پہلے خودی سمجھے جاتے تھے مگر اب دشمن بن چکے تھے۔ مغربی طاقتوں کے مفادات، انقلاب کی کامیابی سے ختم ہو گئے، اور وہ ہمیشہ اس نظام کو ختم کرنے کے درپے رہے۔ لیکن لوگوں میں معنویت اور شہادت طلبی کی روح نے ان کی کوششوں کو ناکام بنایا۔ جیسا کہ امام خمینی (رح) نے فرمایا:ہمارے دشمن یہ سمجھتے تھے کہ سست روی کی سازشوں سے اسلامی تحریک کو سرد کیا جا سکتا ہے، مگر وہ یہ بھول گئے کہ جو قیام خدا کے لیے ہو اور جو تحریک معنویت و عقیدہ کی بنیاد پر ہو، وہ پیچھے نہیں ہٹتی۔


ایک ایسا قوم جو شہادت کو اپنا مکتب بنالے، کبھی غلامی کا طوق قبول نہیں کرتی۔ شہادت طلبی ظاہر کرتی ہے کہ روحانی قوتیں، مادی کمزوریوں کا ازالہ کر سکتی ہیں اور فوجی کمزوریوں کو طاقت میں بدل سکتی ہیں۔ یہی شہادت طلبی، اسلامی نظام کو مادی خطرات سے محفوظ کرتی ہے۔ امام خمینی (رح) نے فرمایا خدا کی راہ میں شہادت کو انسانی پیمانوں اور معمولی محرکات سے نہیں پرکھا جا سکتا۔یہ روحانی تبدیلی تھی کہ لوگ ٹینکوں اور توپوں کے مقابلے میں خالی ہاتھ کھڑے ہو گئے، شہید ہوئے اور آگے بڑھتے گئے، حالانکہ مادی منطق کے مطابق یہ پیشرفت ناممکن لگتی تھی۔


دشمن یہ گمان کرتے ہیں کہ تعداد اور اسلحہ ہی فتح کا سبب ہیں، مگر اصل طاقت وہ دل ہیں جو خدا سے جُڑے ہوں، جو عشقِ شہادت سے لبریز ہوں۔ یہی ایمان ہے جو کامیابی لاتا ہے، نہ کہ تلوار یا فوجی طاقت۔
فتح، خون سے آتی ہے نہ کہ اسلحے سے؛ اور ایمان کی طاقت ہی اصل کامیابی کی بنیاد ہے۔ (صحیفہ امام، ج 16، ص 90)


انقلاب کے بعد شہادت کا تصور جلد ہی عملی شکل اختیار کر گیا اور مطہری، مفتح، بہشتی جیسے اہم شخصیات کی شہادت کی صورت میں سامنے آیا۔ امام خمینی (رح) کے مطابق:


شہادت نہ صرف کمزوری نہیں بلکہ فدائیانِ اسلام کی صفوں کو مضبوط کرتی ہے، ان کے عزم کو مزید پختہ بناتی ہے۔
دشمن گمان کرتے ہیں کہ قیادت کے اہم افراد کو شہید کر کے قوم کو کمزور کیا جا سکتا ہے، مگر شہادت ہر عزیز کی، ان گروہوں کے لیے رسوائی کا باعث ہے جو منافقت یا الحاد کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔


امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:دشمن شہادت کے مفہوم کو سمجھ نہیں سکتے، جبکہ ایرانی قوم شہادت اور قربانی کی عادی ہو چکی ہے اور کوئی بھی طاقت ان لوگوں کے مقابل نہیں آ سکتی جو جان قربان کرنے کے لیے تیار ہوں۔
انہوں نے سیدالشہداء (ع) کو نمونہ قرار دیتے ہوئے تاکید کی کہ دشمن کی تعداد یا عالمی طاقتوں کی مدد سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔


عوام کی افواج سے حمایت اور ان کی شہادت طلبی کی قیادت دنیا میں بے مثال تھی۔
شہادت طلبی کی صدائیں، ایران اور دنیا کو ہلا دیتی ہیں، اور جو قوم شہادت و ایثار کی چوٹی پر کھڑی ہو، اس کا جوش و حرکت روز بروز بڑھتا ہے۔


امام خمینی (رح) کے نزدیک، وہ افراد جو اسلامی اہداف کے لیے جان دیتے ہیں، ملک، افواج اور ان کے خاندانوں کے لیے باعثِ فخر ہیں۔
انہوں نے فرمایا:ایران میں ایسے افراد کی موجودگی جنہیں شہادت کی معرفت حاصل ہے، جو کھلے دل سے اسے قبول کرتے ہیں، کفر کے خلاف ڈٹتے ہیں اور حقیقی استقلال کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں، یہی ملک کی حقیقی بیمہ ہیں۔