عاشورایی ثقافت کو امام خمینی(رہ) نے عملی طور پر پیش کیا

ID: 83521 | Date: 2025/07/14

اعاشورایی ثقافت کو امام خمینی(رہ) نے عملی طور پر پیش کیا


امام خمینی پورٹؒل کی رپورٹ کے مطابق پرتال امام خمینی (س) پر لکھا گیا یہ مضمون اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ دین و معرفت کے بزرگوں کی زندگی کا انداز اور طرزِ عمل قابلِ تقلید ہوتا ہے، اور یہ بات امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے انداز میں بھی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ مرحوم حجۃ الاسلام والمسلمین علی دوانی نے امام خمینی (س) کی سید الشہداء علیہ السلام کے لیے عزاداری کے انداز کے بارے میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے:


سن ۱۳۲۸ شمسی (مطابق تقریباً ۱۹۴۹ عیسوی) میں جب میں اعلیٰ تعلیم کے لیے مقدس شہر قم آیا، تو آیت اللہ العظمیٰ امام خمینی ـ رضوان اللہ تعالیٰ علیہ ـ کو مجالسِ عزاداری میں دیکھا۔ اُس وقت میرے ذہن میں آج کی اصطلاح کے مطابق ’فرہنگِ عاشورا‘ (عاشورائی ثقافت) کی تصویر آتی تھی  ۔ امام بعض مجالسِ عزاداریِ ائمہ اطہار علیہم السلام، جو مسجد بالاسر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا یا مرحوم آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کے گھر میں منعقد ہوتی تھیں، میں اس قدر وقار اور سکون کے ساتھ بیٹھتے اور علماء  کی باتوں کو سنتے تھے کہ ہر دیکھنے والے کی توجہ ان کی طرف مبذول ہو جاتی تھی۔


امام اُس وقت حوزہ علمیہ کے ایک معروف استاد اور علومِ عقلی کے مدرس تھے۔ اُن کی بلند قامت، پر وقار شخصیت، اور مخصوص سکون و متانت کا یہ عالم تھا کہ وہ چاہے چل رہے ہوں یا کسی مجلس میں بیٹھے ہوں، ہر حالت میں نمایاں دکھائی دیتے، اور علمائے حوزہ کے درمیان ان جیسا کوئی نہ تھا۔


جب عالم مصائب کے اریب پہنچتا یا کوئی مرثیہ خواں مرثیہ پڑھنا شروع کرتا تو امام  خمینی وہ پہلے فرد ہوتے جو اپنا سفید، صاف رومال جیب سے نکالتے اور چہرے پر رکھتے اور گریہ فرمانا شروع کرتے۔ اگر وہ دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوتے تو اسی حالت میں بغیر کسی حرکت کے گریہ کرتے، اور اگر جھک کر بیٹھتے تو دیکھا جا سکتا تھا کہ ان کا بدن کانپ رہا ہے اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ جیسے ہی وہ رومال ہٹاتے تو اُن کا آنسوؤں سے تر چہرہ اور نم آنکھیں سب کو رُلا دیتیں، اور مجلس میں موجود دیگر افراد بھی اشک بہانے لگتے۔


اصل میں، امام کا مجالسِ عزاداری میں بیٹھنے کا انداز علماٗءکی باتوں کو سننا، اور کربلا کے شہداء یا ائمہ اطہار علیہم السلام کے مصائب سن کر گریہ کرنا، ایک خاص روحانیت اور اثر رکھتا تھا؛ وہ خاموش، پرسکون، مکمل طور پر سننے والے اور دیکھنے والے ہوتے تھے؛ ان کی توجہ پوری طرح واعظ پر مرکوز رہتی۔ اس طرح کا اندازِ عزاداری، اور گریہ کے لیے آمادگی، میں نے بہت کم علمائے کرام میں دیکھی ہے: "ذٰلِکَ فضلُ اللهِ یُؤْتیہِ مَنْ یشاء"۔


یہاں تک کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ امام منبر کے نیچے واعظ کے خطاب کے دوران، یا مصیبت کے بیان کے وقت، اپنے پہلو میں بیٹھے کسی شخص سے بات کریں؛ کیونکہ یہ منبر اور خطیب کی بے ادبی تصور کی جاتی ہے۔ برخلاف اُن بہت سے علماء کے، خاص طور پر نجف کے علماء، جو اسے اپنے لیے معمول کی بات سمجھتے تھے۔


امام خمینی نے مجالسِ اہل بیت علیہم السلام میں ادب و وقار سے بیٹھ کر، واعظ کی باتوں کو دھیان سے سن کر، اور مصائبِ کربلا پر دل سے گریہ کر کے سب کو یہ دکھا دیا کہ ’فرہنگِ عاشورا‘ (عاشورائی ثقافت) کو زندہ رکھنا اور اس کے احترام کو ملحوظ رکھنا ہم سب پر لازم ہے۔