دنیا پرست نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک سکون کا سانس لے :ڈاکٹر علی کمساری
امام خمینی پورٹل کی رپورٹ کے مطابق مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینیؒ کے سربراہ ڈاکٹر علی کمساری نے مدیران و معاونین کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ:صیہونی حکومت کی ہماری سرزمین پر کھلی جارحیت ایک بار پھر امام خمینیؒ کی دوراندیشی اور دشمن شناسی کی گہرائی کو ہمارے سامنے لے آئی۔ امام خمینیؒ نے سن ۱۳۴۲ (1963) سے ہی اسرائیل کو مسلمانوں کا اصل دشمن قرار دیا تھا۔ امام راحل نے اپنی جدوجہد کے آغاز سے ہی مختلف بیانات اور خطابات میں عوام اور پہلوی حکومت کے حکام کو اسرائیل کے خطرے سے خبردار کیا تھا۔
ڈاکٹر کمساری نے مزید کہا:امام خمینیؒ کی ۱۳۴۲ میں ملک بھر کے واعظین کو دی گئی ہدایات اسرائیل کے خطرے کی گہری شناخت کی مظہر ہیں۔ ۱۳۴۷ (1968) میں امام خمینیؒ نے شرعی طور پر اسرائیل کے خلاف جدوجہد کے لیے وجوہاتِ شرعیہ کے مصرف کی اجازت دی اور ۱۳۵۲ (1973) میں حجاج کے نام پیغام بھی اسی غاصب اسرائیل کے خلاف جدوجہد پر مبنی تھا۔
انہوں نے تاکید کی کہ:اگرچہ حالیہ جارحیت میں ہمارے ملک کو نقصان پہنچا، لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں امام خمینیؒ کی دشمن شناسی اور صیہونی حکومت کے اسلامی دنیا کے لیے خطرات سے متعلق بصیرت کی سچائی اور اہمیت پہلے سے بڑھ کر سمجھ آئی۔ آج، کئی دہائیاں گزرنے کے بعد، ہم امام کے اس ادراک کی حقانیت دیکھ رہے ہیں۔
ڈاکٹر کمساری نے کہا:امام خمینیؒ نے ۱۳۵۸ (1979) میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو "یوم القدس" قرار دے کر اسرائیل کے خلاف جدوجہد کو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھنے کی بنیاد رکھی، جو آج دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف جدوجہد کی علامت بن چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:آج دنیا پر ثابت ہو چکا ہے کہ صیہونی حکومت کسی بین الاقوامی قانون کی پابند نہیں۔ وہ انسانی حقوق، شہری حقوق اور جمہوریت کے نعرے کا سہارا لے کر، مذاکرات کے دوران بھی، ہمارے ملک کے ہسپتالوں، نشریاتی اداروں، اور رہائشی علاقوں پر کھلم کھلا حملے کرتی ہے۔
ڈاکٹر کمساری نے کہا:صیہونی طاقتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے حتیٰ کہ سفارتی آداب کی بھی پابندی نہیں کرتیں اور عوام، خواتین، بچوں اور ہمارے فوجی کمانڈروں پر بھی کھلے عام حملے کرتی ہیں۔
انہوں نے امام خمینیؒ کے معروف قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:"یہ انقلاب شہیدوں کے پاکیزہ خون سے زندہ ہے۔ہمارے وہ کمانڈرجو حالیہ جارحیت میں شہید ہوئے، شہادت کی آرزو رکھتے تھے، کیونکہ ان کے پیشوا امام خمینیؒ نے اسرائیل اور عالمی استعمار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:"یہ انقلاب زندہ رہنا چاہیے، یہ تحریک باقی رہنی چاہیے، اور اس کا زندہ رہنا انہی خونریزیوں میں ہے۔
ہمارا خون بہاؤ، ہماری زندگی کو دوام ملے گا۔ ہمیں قتل کرو، ہماری قوم مزید بیدار ہوگی۔ ہمیں موت کا خوف نہیں، اور تمہیں ہماری موت سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ تمہاری کمزوری کی دلیل ہے کہ تم رات کی تاریکی میں ہمارے مفکرین کو قتل کرتے ہو، کیونکہ تمہارے پاس منطق نہیں۔ اگر تمہارے پاس منطق ہوتی تو بحث کرتے، بات کرتے۔ لیکن تمہاری منطق صرف دہشتگردی ہے۔"
کمساری نے کہا:ہمارے دلیر فرماندهان ملک کی حفاظت میں جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑتے ہیں۔ شہید حاجیزاده نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "ہم ہمیشہ غسل شہادت کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔"
انہوں نے امام حسین (ع) کے خطبہ (۸ ذی الحجہ) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا موت، اولادِ آدم کے لیے ایسی ہے جیسے لڑکی کی گردن پر قیمتی ہار، اور مجھے اپنے اجداد سے ویسا ہی اشتیاق ہے جیسا یعقوب کو یوسف سے تھا۔
اور فرمایا: میرے لیے شہادت گاہ معین ہو چکی ہے، میں ضرور اس تک پہنچوں گا۔
ڈاکٹر کمساری نے تشیع کے ایک مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:تشیع دو پروں پر مشتمل ہے: سرخ پر (شہادت) اور سبز پر (انتظار)۔
ہم انہی دو پروازوں کے ذریعے آگے بڑھتے ہیں۔ یہی فرق ہمیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ ہم شہادت اور انتظار کے ساتھ جیتے ہیں؛ اور محبت، عشق، اور ولایت کے ساتھ زندہ رہتے ہیں، جو دیگر مذاہب میں نہیں پایا جاتا۔ یہی ہمارا مکتب ہے۔
انہوں نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں کہا:صیہونی حکومت کی بزدلانہ جارحیت اور بعض داخلی خائن عناصر کی دشمنوں کی ہمراہی کے باوجود، جو چیز ان دنوں نمایاں ہوئی وہ قوم کا حماسی جذبہ تھا۔ دشمن نے ثقافتی تبدیلی کی کوشش کی، اور یہ سمجھا کہ اگر حجاب کو ختم کیا جائے تو اسلامی جمہوریہ زوال کا شکار ہو جائے گی۔
اگرچہ حالیہ برسوں میں ہم نے انتخابات میں عوامی عدم شرکت کا مشاہدہ کر رہے تھے، لیکن قوم نے دفاعِ نظام میں وحدت و انسجام کی آواز بلند کی۔ یہاں تک کہ وہی بےحجاب لڑکیاں اور لڑکے بھی ملک کے دفاع میں شریک ہوئے اور کہا کہ "ہم اپنی جان قربان کریں گے۔
کمساری نے مزید کہا:ہم نے ایک اور اہم اور مختلف تجربہ بھی دیکھا: ایران کی میزائلی طاقت دنیا پر آشکار ہو گئی۔ سپاہ، بسیج، اور افواج نے اپنی شجاعت اور وطن پرستی کا ثبوت دیا۔
انہوں نے کہا:امریکہ اور اسرائیل کا اصل مقصد ایران کو نابود اور تقسیم کرنا تھا۔ انہوں نے ہماری اعلیٰ فوجی قیادت، ایٹمی سائنسدانوں اور معصوم عوام کو شہید کیا، لیکن وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے۔
ان کا کہناتھا کہ جتنا زیادہ ہم امام خمینیؒ کی نصیحتوں پر توجہ کرتے ہیں، اتنا ہی ان کی دشمن شناسی کی گہرائی کو سمجھ پاتے ہیں۔
ڈاکٹر کمساری نے آخر میں کہا:جیسا کہ امام خمینیؒ کے پوتے آیت اللہ سید حسن خمینی نے صدا و سیما کے ایوان کے دورے پر فرمایا، اور جیسا کہ رہبر معظم انقلاب کے پیغام میں بھی چوتھا نکتہ تھا:رہبر انقلاب اسلامی کی مدبرانہ قیادت اور موجودگی، جو کہ فرمانده کل قوا ہیں، نے اسرائیل و امریکہ کی سازشوں کو ناکام بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کی تدابیر یقینی طور پر خداوندی نعمت ہیں۔