اسلامی تاریخ کا سب سے اہم اور اثرگذار واقعہ، واقعہ کربلا ہے، جس نے امت مسلمہ کے ضمیر کو جھنجھوڑا، حق و باطل کی سرحدوں کو واضح کیا، اور ظلم و عدل کے درمیان قیامت تک کے لیے معیار قائم کیا۔ اس عظیم قربانی کے وارث اور اس کے حقیقی پیامبر، وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس پیغام کو زندہ رکھا، اس کے مفاہیم کو عام کیا، اور امت کو بیداری کی راہ دکھائی۔ انہی میں ایک عظیم شخصیت حضرت امام خمینیؒ کی ہے، جنہوں نے امام حسینؑ کے قیام کو ایک زندہ اور انقلابی مکتب کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔
امام حسینؑ کا قیام اور اس کی اہمیت
امام حسین علیہ السلام کا قیام، محض ایک شخص یا ایک خاندان کا سیاسی احتجاج نہیں تھا بلکہ یہ ایک الہی تحریک تھی، جو اسلام کی اصل روح کی حفاظت کے لیے برپا ہوئی۔ یزید کی حکومت، اسلامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کر رہی تھی اور دین کو ملوکیت میں تبدیل کر چکی تھی۔ امام حسینؑ نے ایسی حکومت کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کر کے یہ ثابت کیا کہ حق کے لیے جان دینا بہتر ہے، مگر باطل کے سامنے جھکنا گناہ ہے۔
کربلا میں امام حسینؑ کی قربانی صرف جسمانی نہیں بلکہ روحانی اور فکری بھی تھی۔ ان کا پیغام آج بھی زندہ ہے، کیونکہ وہ نہ صرف اپنی جان دی بلکہ اسلام کے اصولوں اور اقدار کو قیامت تک کے لیے محفوظ کیا۔
امام خمینیؒ اور فکرِ حسینی
حضرت امام خمینیؒ نے جب اسلامی انقلاب ایران کی قیادت کی، تو انہوں نے کربلا کے پیغام کو اپنی تحریک کی بنیاد بنایا۔ ان کا مشہور جملہ ہے:
"محرم و صفر ہے جس نے اسلام کو زندہ رکھا ہے"
یہی عقیدہ ان کے پورے انقلابی نظام کی بنیاد تھا۔ امام خمینیؒ نے امام حسینؑ کے قیام کو ایک سیاسی اور دینی نمونہ قرار دیا، اور عاشورا کو ظلم کے خلاف قیام کی عالمی علامت میں تبدیل کر دیا۔
امام خمینیؒ نے فرمایا:
"تمام دن عاشورا ہے، اور تمام زمین کربلا"
یعنی ظلم کے خلاف قیام صرف 10 محرم یا ایک خاص میدان تک محدود نہیں، بلکہ ہر زمانے اور ہر جگہ میں جاری رہنا چاہیے۔ امام حسینؑ کا پیغام ایک ابدی پیغام ہے جو ہر مظلوم اور ہر حق پرست انسان کے دل میں گونجتا ہے۔
عزاداری: محض غم نہیں، بلکہ بیداری
محرم اور عزاداری صرف آنسو بہانے کا نام نہیں، بلکہ ایک فکری بیداری، عملی تربیت، اور انقلابی شعور کا ذریعہ ہے۔ امام خمینیؒ نے عزاداری کو ایک عظیم سیاسی و اجتماعی تحریک کے طور پر دیکھا۔ ان کے نزدیک مجلسِ عزا وہ جگہ ہے جہاں عوام کو ظلم، ستم، سامراج، اور استبداد کے خلاف اٹھنے کی جرات ملتی ہے۔
انہوں نے بارہا تاکید کی کہ عزاداری کو زندہ رکھا جائے، اور اس میں امام حسینؑ کے قیام کے اصل پیغام کو بیان کیا جائے، تاکہ امت اسلامیہ شعور حاصل کرے اور حق و باطل کو پہچانے۔
امام حسینؑ اور موجودہ دور
آج جب دنیا ظلم، فقر، سامراج، اور ثقافتی حملات کا شکار ہے، تو ہمیں ایک بار پھر امام حسینؑ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ان کی سیرت ہمیں سکھاتی ہے کہ باطل کے خلاف قیام صرف طاقت سے نہیں بلکہ ایمان، استقامت، صداقت، اور قربانی سے کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح امام خمینیؒ کی سیرت بھی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ جب ایک ملت بیدار ہو جائے، اور امام حسینؑ کے نقش قدم پر چلے، تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
محرم، امام حسینؑ، عزاداری، اور امام خمینیؒ کی فکر، سب ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ یہ سب مل کر ہمیں ایک ایسا نقشۂ راہ فراہم کرتے ہیں، جس پر چل کر ہم نہ صرف اپنی ذاتی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ اجتماعی سطح پر ظلم و فساد کے خلاف ایک مؤثر تحریک بھی چلا سکتے ہیں۔
لہٰذا، ضروری ہے کہ ہم محرم کی قدر کریں، عزاداری کو زندہ رکھیں، اور اس کے اندر چھپے ہوئے پیغام کو سمجھ کر اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں۔ امام حسینؑ نے ہمیں زندہ رہنے کا سلیقہ سکھایا، اور امام خمینیؒ نے ہمیں بتایا کہ اس سلیقے کو زمانہ حال میں کیسے عملی جامہ پہنایا جائے۔