امام سجاد علیہ السلام نے اپنے عمل سے دین کی تبلیغ کی ہے

خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے ہمیشہ اپنے عمل سے دین اسلام کی تبلیغ کا فریضۃ سرانجام دیا اور آپ عفو الہی کے مظہر اتم و اکمل تھے آپ نے سادگی میں زندگی بسر کی اگرچہ حکومت بنی امیہ نے اہل بیت(ع) کی شأن منزلت کو گھٹانے کے لئے اور لوگوں کے دلوں کو آپ

ID: 74728 | Date: 2022/08/23

امام سجاد علیہ السلام نے اپنے عمل سے دین کی تبلیغ کی ہے


حضرت امام سجاد علیہ السلام مورخہ 5 شعبان المعظم سن 38 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کی والدہ گرامی جناب شہربانو شاہ ایران کی بیٹی تھیں۔امام سجاد علیہ السلام جب نماز میں کھڑے ہوتے تھے آپ کا پورا بدن لرزنے لگتا تھا اور چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا تھا امام سجاد علیہ السلام کی یوں تو بہت سی خصوصیات کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے  لیکن آپ کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے ہمیشہ اپنے عمل سے دین اسلام کی تبلیغ کا فریضۃ سرانجام دیا اور آپ عفو الہی کے مظہر اتم و اکمل تھے آپ نے سادگی میں زندگی بسر کی اگرچہ حکومت بنی امیہ نے اہل بیت(ع) کی شأن منزلت کو گھٹانے کے لئے اور لوگوں کے دلوں کو آپ سے موڑنے کے لئے کوئی لمحہ ضائع نہیں کیا لیکن آپ کا عمل اتنا قوی تھا کہ بنی امیہ کی پوری حکومت اور اس کے نمک خواروں کے لاکھ پیروپگنڈوں کے باوجود بھی وہ حضرت کی محبت کو لوگوں کے دلوں سے محو کرنے ناکام رہے۔


امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک دوسری خصوصیت یہ تھی کہ آپ ہمیشہ ضرورتمندوں کی ضرورت اور محتاجوں کی مدد فرماتے تھے چنانچہ آپ رات کے سناٹے میں اپنے دوش مبارک پر کچھ کھانے اور ضرورت کا سامان لیکر ضرورتمندوں تک پہونچایا کرتے تھے اور مدینہ کے محتاج و تنگدست ہمیشہ رات ڈھلتے ہی آپ کا انتظار کیا کرتے تھے۔(1)


امام سجاد علیہ السلام کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ آپ غلاموں کو خریدتے اور انہیں تعلیم دین دیتے اور پھر آزاد کردیتے تھے چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی میں 1000 غلام خرید کر آزاد کئے۔(2)اور آپ نے کسی بھی غلام کو ایک برس سے زیادہ اپنے پاس نہیں رکھا۔(3)


امام سجاد(ع) ان تمام غلاموں کو دین اسلام کے احکام سکھاتے اور انہیں اسلامی اخلاق و آداب سے آراستہ کرتے تھے اور جب وہ اہل بیت عصمت و طہارت(ع) کی تعلیمات سے آشنا ہوجاتے تو انہیں آزاد کردیتے تھے ۔اور یہ غلام بھی آزادی پانے کے بعد اپنا رابطہ امام سجاد(ع) سے قطع نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ اپنے محسن کی یاد میں رہتے تھے اور یہ تعلقات اور روابط بہت سے دیگر لوگوں کو امام کے دامن عافیت و امن میں کھینچ کر لانے کا سبب بنتا تھا اور اس طرح معارف الہی اور تعلیمات محمد و آل محمد(ص) کا سلسلہ قائم و دائم رہتا تھا۔


جب امام سجاد علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی تو پورا مدینہ امام علیہ السلام کے سوگ میں عزادار ہو گیا، مرد و زن، گورا کالا اور چھوٹا بڑا سب امام کے غم میں گریاں تھے اور زمین و آسمان سے غم کے آثار نمایاں تھے۔


امام علی ابن الحسين عليہ السلام جو سجاد ، زين العابدين ، اور سيد الساجدين ، جیسے القاب سے مشہور تھے، کربلا میں آئے تو 22 سالہ نوجوان تھے۔


11 محرم کو عمر ابن سعد ملعون نے اپنے مقتولین کی لاشیں اکٹھی کروائیں اور ان پر نماز پڑھی اور انہیں دفنا دیا مگر امام حسین علیہ السلام اور اصحاب و خاندان کے شہداء کے جنازے دشت کربلا میں پڑے رہے۔  عمر سعد نے کوفہ کی طرف حرکت کا حکم دیا۔  عرب اور کوفے کے قبیلوں کے افراد نے ابن زیاد کی قربت اور خداوند کی لعنت حاصل کرنے کے لیے شہداء کے مطہر سروں کو آپس میں تقسیم کر کے نیزوں پر سجایا اور کوفہ جانے کے لیے تیار ہوئے اور حرم رسول اللہ (ص) کی خواتین، بچوں اور بچیوں کو بے چادر، اونٹوں پر سوار کیا گیا اور کفار کے اسیروں کی طرح انہیں کوفہ کی جانب لے گئے۔


حضرت علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب (ع) ولید ابن عبد الملک کی بادشاہی کے زمانے میں شہید ہوئے۔ چنانچہ عمر ابن عبد العزیز بادشاہ بنا تو کہا: ولید ایک جابر و ظالم شخص تھا جس نے خدا کی زمین کو ظلم و جور سے بھر دیا تھا۔ اس شخص کے دور میں پیروان آل محمد (ص)، خاندان رسالت اور بالخصوص امام سجاد (ع) کے ساتھ مروانیوں اور امویوں کا رویہ بہت ظالمانہ اور سفاکانہ تھا۔


 گو کہ مدینہ کا والی ہشام ابن اسماعیل مروان کے زمانے سے مدینہ منورہ پر مسلط تھا لیکن ولید کے دور میں اس کا رویہ بہت ظالمانہ تھا اور اس نے امام سجاد (ع) کے ساتھ شدت آمیز برتاؤ روا رکھا۔ اس نے اہل مدینہ پر اتنے مظالم ڈھائے کہ ولید ابن عبد الملک نے اس کو منصب سے ہٹا دیا اور اپنے باپ مروان کے گھر کے دروازے کے ساتھ رکھا تا کہ لوگ اس سے اپنا بدلہ لے سکیں۔ یہ شخص خود کہا کرتا تھا کہ امام سجاد (ع) سے خوفزدہ ہے اور اس کو ڈر تھا کہ امام سجاد (ع) اس کی شکایت کریں گے، امام سجاد (ع) اپنے اصحاب کے ہمراہ مروان کے گھر کے سامنے سے گزرے جہاں ہشام ابن اسماعیل کی شکایتیں ہو رہی تھیں لیکن امام اور آپ کے ساتھیوں نے ایک گرے ہوئے منکوب شخص کی کسی سے کوئی شکایت نہیں کی :


 بلکہ روایت میں ہے کہ امام سجاد (ع) نے معزول مروانی گورنر کو اس کے تمام مظالم اور جرائم بھلا کر پیغام بھیجا کہ اگر تم تنگدست ہو تو ہم تمہاری مدد کے لیے تیار ہیں۔


مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے بعض کا کہنا ہے کہ امام سجاد (ع) ولید ابن عبد الملک کے ہاتھوں مسموم ہوئے اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ آپ کو ولید کے بھائی ہشام ابن عبد الملک نے مسموم کیا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ خواہ ہشام ہی امام کا قاتل کیوں نہ ہو، وہ یہ کام ولید کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتا تھا چنانچہ ولید ابن عبد الملک ابن مروان ابن العاص رو سیاہ ہی امام سجاد (ع) کا قاتل ہے۔