امام خمینی رہ نے قیام حسینی اور مکتب عاشورا کو زندہ کیا:ڈاکٹر علی کمساری

امام خمینی رہ کے سیاسی اور اجتماعی نظریات کو دیکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ اسلامی تحریک کے آغاز سے لے کر اختتام تک امام حسین علیہ السلام کے مکتب کے پیروکار تھے اور آپ نے مختلف طریقوں سے

ID: 74604 | Date: 2022/08/05

امام خمینی رہ نے قیام حسینی اور مکتب عاشورا کو زندہ کیا:ڈاکٹر علی کمساری


موسسہ نشر و آثار امام خمینی کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر علی کمساری نے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ امام خمینی رہ کے سیاسی اور اجتماعی نظریات کو دیکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ اسلامی تحریک کے آغاز سے لے کر اختتام تک امام حسین علیہ السلام کے مکتب کے پیروکار تھے اور آپ نے مختلف طریقوں سے اس قیام کے مختلف پہلووں کو نمایاں کیا اور اس تحریک کے آغاز سے ہی قیام بر حق کو اہمیت دی اور جیسا کہ قرآن مبین میں ارشاد ہو رہا ے قل انما اعظکم بواحدہ ان تقوموا للہ مثنی و فرادی وہ فرائض اور شعائر دینی کو زندہ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔


انقلاب اسلامی کی ترقی و توسیع کی راہ میں امام (س) نے محرم اور صفر میں بھی مجالس کے انعقاد کی اہمیت پر تاکید کی اور ان مجالس کو اسلام کے آخری ہدف یعنی اصلاح کی بنیاد قرار دیا۔ اور انہوں نے محرم اورصفر کو زندہ رکھنے سے اپنا سماجی سرمایہ حاصل کیا تھا۔ ایک ایسا سرمایہ جو روحانی اور ذاتی جہتوں کی نشوونما میں کارگر ہو اور انسانوں کے اعلیٰ پہلوؤں کو مدنظر رکھے اور انسانی معاشرتی زندگی کی بلندی اور ایک صالح حکومت اور وسیع عدل کے قیام میں بھی کردار ادا کرے۔


اس طرح انقلاب اسلامی کی فتح کے اہم عوامل میں سے ایک یہ ماتمی تقریبات رہی ہیں  امام (رہ) کی ذہانت سے حسین (ع) کی یہ مجالس اسلامی انقلاب اور اس کے اہداف کی تشہیر اور کا اہم اڈہ بن گئی تھیں ۔ اسلامی انقلاب اوان کا کہنا تھا کہ ہم ایسی قوم ہیں جو آنسووں سے سیلاب جاری کر دیں گے اور اسلام کے مقابلے آنے والی تمام دیواروں کو توڑ دیں گے۔


اسی وجہ سے امام (رہ) نے محرم کے مہینے میں خطبات اور نصیحتوں کو صرف تاریخی یادگاری کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھا اور ان مجالس کو جن میں جہالت کے مقابلے میں عقل کے لشکر کو فتح ملتی ہے اور عدل کو ظلم کے مقابلے میں فتح ملتی ہے۔


یہی وجہ ہے کہ رہبر معظم نے معاشرے کے باشعور افراد کو تحریفات کو روکنے  اور تاریخ اسلام اور اسلامی انقلاب کی صحیح بیان پر توجہ دینے کی تاکید کی اور ایک جہاد کی تجویز پیش کی جسے وضاحت کا جہاد کہتے ہیں۔


 یہ ایک ایسا جہاد جس کے ذریعے اسلامی معاشرے سے جہالت کے پردے کو ہٹانے کے لیے علماء اور با بصیرت افراد کو دعوت دی اور امت اسلامیہ کو اپنے وقت کے پیچیدہ فتنوں سے نمٹنے کے لیے تیار کرنے کی تاکید کی  اور ایک نئی دنیا کی تشکیل کے لیے اپنا تاریخی کردار ادا کرنے کی تاکید کی۔


اور آج بھی امت اسلامیہ کو ظلم کا مقابلہ کرنے اور ظلم کے حصار سے نکلنے کے لئے پہلے سے زیادہ حسینی قیام اور مکتب عاشورہ پر عمل کرنے کی ضرورت ہے تانکہ موجودہ سیاسی حالات کو سمجھنے کے لئے بہترین راہ حل نکال سکیں