ایران قومی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کریگا

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے ایٹمی معاہدے سے متعلق اپنی بائیسویں اور آخری رپورٹ گذشتہ روز پارلیمنٹ میں پیش کی ہے

ID: 70549 | Date: 2021/07/15

ایران قومی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کریگا


 


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی


 


اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے ایٹمی معاہدے سے متعلق اپنی بائیسویں اور آخری رپورٹ گذشتہ روز پارلیمنٹ میں پیش کی  ہے، جس میں حالیہ ویانا مذاکرات کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اس پر امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے، البتہ اس ردعمل سے پہلے پارلیمنٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کا مختصر احوال بیان کرنا اہمیت کا حامل ہے، تاکہ مسئلے کو سمجھنے میں آسانی رہے۔ قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ایرانی وزارت خارجہ کی یہ رپورٹ دو سو تیرہ صفحات اور چودہ شقوں پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ میں حالیہ برسوں کے دوران ایٹمی معاہدے پر عمل درآمد اور اس بین الاقوامی معاہدے کی بحالی کے بارے میں ویانا مذاکرات کی تازہ ترین صورت حال کی  مکمل تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔


 


خبری ذرائع کے مطابق اس رپورٹ میں چودہ 14 شقوں میں ایٹمی معاہدے کے نتائج، ایٹمی معاہدے پر عمل درآمد، ریڈ لائنز کی پابندی کے لئے کی جانے والی کوششوں، ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی غیر قانونی اور یکطرفہ طور پر علیحدگی، ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کے بعد یورپ کی جانب سے موثر اقدامات کے فقدان، ایرانی عوام کے خلاف امریکہ کی ہمہ جہتی اقتصادی جنگ، اختلافات کے حل کے لئے ایٹمی معاہدے کی شق نمبر 36 چھتیس کے استعمال، پابندیوں کو ختم کرانے کے لئے اسٹریٹیجک اقدام کے قانون پر عمل درآمد کے تحت ایٹمی وعدوں پر عمل درآمد کی معطلی، ایرانی قوم کے حقوق کے تحفظ، ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کی شکست و ناکامی، امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے رویئے اور ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی کے طریقے، پابندیوں کے خاتمے کی ضرورت کے بارے میں دستاویزات اور ایران کے اسلامی نظام کی ٹھوس پالیسیوں کی بنیاد پر ویانا مذاکرات کی تفصیلات موجود ہیں۔


 


اس رپورٹ کی 13 تیرہویں شق میں ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لئے ویانا مذاکرات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ رواں ایرانی سال یعنی 21 اکیس مارچ کے بعد سے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت نے ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے رکن ملکوں اور ان ملکوں کے ذریعے امریکہ سے بالواسطہ طور پر نہایت سخت اور سنجیدہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ سحر اردو ٹی وی کے مطابق اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان مذاکرات کا نتیجہ ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن میں طے ہونے والا سمجھوتہ ہوگا۔ جس میں پابندیوں کے خاتمے اور پابندیوں کے خاتمے کے عملی اقدامات کی سچائی کو عملی طور پر پرکھنے جیسے معاملات شامل ہوں گے۔ اس سمجھوتے میں امریکہ شامل نہیں ہوگا اور جب امریکہ عملی طور پر پابندیاں ختم کر دے گا اور وہ مشترکہ کمیشن کے سمجھوتے کے مطابق اپنے عمل کو یقینی بنا دے گا، اس کے بعد واشنگٹن کو ایٹمی معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کا موقع دیا جائے گا۔


 


ادھر ایٹمی معاہدے کے بارے میں ایران کی وزارت خارجہ کی تیار کردہ آخری رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کے محض ایک روز کے اندر امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نڈ پرائس نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کا ملک ایٹمی معاہدے کے بارے میں ویانا میں جاری مذاکرات میں واپسی کے لیے تیار ہے، تاہم مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ ایران کو کرنا ہوگا۔ ایٹمی معاہدے کی بحالی کی غرض سے ایران اور چار جمع ایک گروپ کے درمیان ویانا مذاکرات کا آغاز رواں سال مارچ میں ہوا تھا اور اب تک اس کے چھے دور ہوچکے ہیں۔ ایٹمی معاہدے کی بحالی کی غرض سے چھٹے دور کے مذاکرات ختم ہوئے تقریباً ایک ماہ پورا ہونے والا ہے لیکن ساتویں دور کے مذاکرات کے لیے کسی تاریخ کا تاحال اعلان نہیں کیا گیا۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ساتویں دور کے آغاز کے لیے لازمی اقدامات کی انجام دہی کے حوالے سے واشنگٹن کے پس و پیش کی جانب کوئی اشارہ کیے بغیر دعویٰ کیا کہ یہ بات ایران ہی بہتر بتاسکتا ہے کہ مذاکرات کا ساتواں دور کب دوبارہ شروع ہوگا۔


 


حالانکہ ایران کے سینیئر ایٹمی مذاکرات کار سید عباس عراقچی نے ویانا مذاکرات کے چھٹے دور کے اختتام پر کہا تھا کہ مذاکرات کا اگلا دور کسی معاہدے پر منتج ہوسکتا ہے، لیکن اس کے لیے مغربی ملکوں اور خاص طور پر امریکہ کو بعض سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں واضح کر دیا تھا کہ ایٹمی معاہدے کی بحالی کا اصول صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ اس معاہدے سے یک طرفہ طور پر نکلنے والا امریکہ پہلے تمام پابندیاں ختم کرے، اس کے بعد ایران ایٹمی معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد شروع کرے گا۔ امریکیوں کی مشکل یہ ہے کہ وہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی ناکام ہو جانے اور ایٹمی معاہدے میں واپسی کی شدید خواہش کے باوجود، صیہونی لابی کے دباؤ  کی وجہ سے اس معاہدے کی بحالی کے لیے لازمی اقدامات سے گریز اور بعض ایسے معاملات کو مذاکرات سے نتھی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جن کا ایٹمی معاہدے سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔


 


ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پیر کے روز بیان دیتے ہوئے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ تہران میں دو باتوں پر پوری طرح اتفاق رائے پایا جاتا ہے، ایک یہ کہ امریکی پابندیاں موثر طور پر ہٹائی جائیں اور دوسرے یہ کہ ایٹمی سرگرمیوں کے علاوہ دوسرے معاملات کو معاہدے سے نہ جوڑا جائے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن ایٹمی معاہدے کی بحالی میں سنجیدہ نہیں ہے اور ساتویں دور کے مذاکرات کے آغاز کی بال ایران کی کورٹ میں پھینک کر ساری ذمہ داری ایران کے سر ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ نے ماضی میں کسی بھی ملک یا دھڑے سے مذاکرات میں ہمیشہ اپنے موقف کو منوایا ہے، لیکن ایران کے مسئلے میں اسے مسلسل ناکامیوں کا سامنا ہے۔ ایران کسی خوف، دھونس یا دھاندلی سے مرعوب ہو کر اپنے قومی مفادات پر سمجھوتے کرنے کو تیار نہیں، یہی وجہ ہے کہ امریکہ پہلے عالمی ایٹمی معاہدے سے نکل کر اور اب ویانا مذاکرات کو طول دیکر اپنے مذموم اہداف کے درپے ہے، لیکن ایران اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے اور امریکہ مجبور ہو کر یہ کہہ رہا ہے کہ وہ معاہدہ میں واپس آرہا ہے، حالانکہ اس کا یہ موقف بھی قابل اعتماد نہیں۔