اسلامی ممالک جناب ابراہیم علیہ السلام کی طرح فداکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستکبرین کے خلاف قیام کریں

اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی (رہ) عید قربان کے عرفانی پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں: ایک بیٹے کی قربانی کا مسئلہ خود ایک باب ہے جو انسانی نکتہ نگاہ سے ایک اہم مسئلہ ہے لیکن جو چیز اس کی بنیاد بنی ہے وہ ہماری اور آپ کی سمجھ سے بالاتر ہے ہم تو بس اتنا کہتے ہیں انہوں نے ایثار کیا، قربانی کی، حقیقت میں بھی یہی چیز تھی اور یہ بہت اہم چیز ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جناب ابراہیم علیہ السلام کی نظر میں بھی یہ ایثار تھا؟

ID: 65474 | Date: 2020/07/31

اسلامی ممالک جناب ابراہیم علیہ السلام کی طرح فداکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستکبرین کے خلاف قیام کریں


اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی (رہ) عید قربان کے عرفانی پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں: ایک بیٹے کی قربانی کا مسئلہ خود ایک باب ہے جو انسانی نکتہ نگاہ سے ایک اہم مسئلہ ہے لیکن جو چیز اس کی بنیاد بنی ہے وہ ہماری اور آپ کی سمجھ سے بالاتر ہے ہم تو بس اتنا کہتے ہیں انہوں نے ایثار کیا، قربانی کی، حقیقت میں بھی یہی چیز تھی اور یہ بہت اہم چیز ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جناب ابراہیم علیہ السلام کی نظر میں بھی یہ ایثار تھا؟ جانفشانی تھی؟ یا یہ مسئلہ نہیں تھا البتہ یہ مسئلہ انسان کی نفسیات سے مربوط ہے اس کا نام ایثار ہے مثلا میں راہ خدا میں اپنے بیٹے کی قربانی کرتا ہوں راہ خدا میں اپنی جان کی قربانی کرتا ہوں، یہ چیز ہمارے لئے کافی اہمیت رکھتی ہے لیکن جناب ابراہیم علیہ السلام کے لئے یہ مسئلہ نہیں ہے اس طرح کا ایثار نہیں ہے اس طرح کی قربانی نہیں ہے کیونکہ جناب ابراہیم علیہ السلام کے ہاں خودی کا تصور نہیں ہے تاکہ ہم یہ کہیں کہ انہوں نے ایثار کیا، اسی طرح جناب اسماعیلؑ کے ہاں بھی خودی کا تصور نہیں ہے تا کہ ہم یہ کہیں کہ انہوں نے بھی ایثار کیا اور قربان ہونے کے تیار ہو گئے۔ ایثار یہ ہے کہ میں ہوں میرا وج ود ہے، تم ہو تمہارا وجود ہے میرا عمل تمہارے لئے تمہارا عمل میرے لئے ایثار کہلائے گا لیکن جہاں خودی کا تصور بھی نہ ہو صرف وجود خدا ہی ہو وہاں اس طرح کا ایثار اور اس طرح کی قربانی نہیں پائی جاتی۔ ہماری نگاہ میں اس طرح کا ایثار بہت اہمیت رکھتا ہے اور کمال کہلاتا ہے لیکن اہل معرفت اور اولیائے خدا کے نزدیک یہ چیز شرک ہے۔ ہمارے نزدیک عید کا مفہوم کچھ اور ہے اور جناب ابراہیم و دیگر انبیاء کے نزدیک اس کا مفہوم کچھ اور ہے، ہم بھی عید مناتے ہیں وہ بھی عید مناتے ہیں ہم ایک دوسرے کا دیدار کرتے ہیں خوشیاں مناتے ہیں لیکن وہ عید مناتے ہیں جسے عید لقاء و ملاقات کہا جاتا ہے وہ اس دن صرف خدا کا مزید تقرب چاہتے ہیں۔


امام خمینی (رہ) عید کے سیاسی پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: عصر حاضر میں کچھ ایسے جوان پائے جاتے ہیں جو حقیقت میں فداکاری کرتے ہیں شہادت کی جانب گامزن ہیں، کچھ ایسے افراد ہیں جو اپنے جوانوں و نوجوانوں کو شہادت کے لئے بھیجتے ہیں اور اس چیز سے خوشی محسوس کرتے ہیں یہ فداکاری بھی جناب ابراہیم و اسماعیلؑ کی فداکاری کی ایک قسم ہے لیکن فرق یہ ہے کہ وہاں معرفت اپنے عالی ترین مرتبہ پر ہے اور یہاں اس کا مرتبہ کم ہے لہذا ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ ہم اس طرح کی فداکاری سے بھی عاجز ہیں الحمد للہ اس طرح کی فداکاریوں نے اسلام کو اس طرح سرافراز کیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے تاریخ کے اوراق میں قید ہوگئیں۔ امام خمینی (رہ) تمام اقوام کو تاکید کرتے ہیں کہ وہ تمام اقوام اور دنیا کے مستضعفین کی مدد میں جناب ابراہیم علیہ السلام کی طرح فداکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستکبرین کے خلاف قیام کریں اور اس راہ میں خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے نہ ڈریں، امام کی آرزو ہے کہ اس طرح کی سرافرازی تمام اقوام عالم کے لئے حاصل ہو اور جس طرح ایرانی قوم نے پورے جذبہ کے ساتھ انقلاب کو کامیابی دلائی اسی طرح تمام مستضعفین کو بھی کامیابی نصیب ہو۔