صدام کی طرف سے مسلط کی گئی جنگ میں شہید چمران کا کردار

اہواز میں کچھ رضاکار نوجواں آپ کے پاس آئے اور آپ نے ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے اس گروہ کو قوت بخشی جس کا نتیجہ اہواز میں رونما ہونے والی مختلف جنگوں میں سامنا آیا۔ اہواز میں آپ کی منجملہ سرگرمیوں میں ایک یہ تھی کہ آپ نے اپنی کاوشوں و محنتوں کے نتیجہ میں فوج، سپاہ اور عوام الناس کے درمیان ہم آہنگی ایجاد کی اور جنگ کو نئی ٹیکنیک سے ایک نیا رخ دیا جس کے بارے میں استعماری طاقتوں نے پہلے ہرگز نہیں سوچا تھا۔

ID: 64949 | Date: 2020/06/20

صدام کی طرف سے مسلط کی گئی جنگ میں شہید چمران کا کردار


شہید ڈاکٹر مصطفی چمران 1932ء میں شہر مقدس ِقم میں پیدا ہوئے۔ آپ نے جس گھر میں پرورش پائی اگرچہ اس میں غربت اور سختیاں تھیں لیکن گھر کا ماحول مذہبی تھا،والدین نماز ِ پنجگانہ مسجد میں ادا کرتے تھے؛والدہ دعاؤں کی عاشق تھی اور والد حلال کمائی اور حلال غذا کےسخت پابند تھے۔


ڈاکٹر مصطفیٰ چمران نے اپنے تعلیم کا آغاز تهران میں واقع  "انتصاریه" نامی سکول سے   کیا  اور پھر دارالفنون  اور البرز  جیسے اسکولوں میں اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔ اس کے  بعد تہران یونیورسٹی کے ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لیا اور سن ۱۳۳۶ ھجری شمسی میں  الیکٹرومیکانیک کے شعبہ میں اپنی ڈگری مکمل کی۔ اور اس کے بعد فنی کالج میں ایک سال تدریس کے فرائض انجام دئے۔ سن ۱۳۳۷ ھجری شمسی میں اعلی تعلیم کی غرض سے امریکا تشریف لے گۓ اور اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے امریکا کی مشہور یونیورسٹیوں کیلی فورنیا اور برکلے میں الیکٹرونیک اور پلازما فیزیکس کے شعبہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری جاصل کی۔


خوزستان میں سرگرمیاں: اہواز میں کچھ رضاکار نوجواں آپ کے پاس آئے اور آپ نے ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے اس گروہ کو قوت بخشی جس کا نتیجہ اہواز میں رونما ہونے والی مختلف جنگوں میں سامنا آیا۔ اہواز میں آپ کی منجملہ سرگرمیوں میں ایک یہ تھی کہ آپ نے اپنی کاوشوں و محنتوں کے نتیجہ میں فوج، سپاہ اور عوام الناس کے درمیان ہم آہنگی ایجاد کی اور جنگ کو نئی ٹیکنیک سے ایک نیا رخ دیا جس کے بارے میں استعماری طاقتوں نے پہلے ہرگز نہیں سوچا تھا۔


شہادت: ۳۱ خرداد ۱۳۶۰ ھجری شمسی میں دہلاویہ کے کمانڈر جناب ایرج رستمی شہید ہو گئے تو ان کی شہادت کی خبر سنتے ہی ڈاکٹر شہید چمران کو بہت بڑا صدمہ پہنچا۔ ڈاکٹر چمران نے اس غم و اندوہ کے عالم میں ایک اور کمانڈر کو بلایا اور دہلاویہ جانے کا حکم دیا جن کی تعییناتی پر ایک سپاہی نے نہایت خوبصورت لفظوں میں کہا کہ روز عاشورہ کی طرح امام حسین (ع) کے اصحاب کی طرح ایک ایک کر کے تمام سپاہی قربان ہو چکے ہیں اور اب وہ خود میدان میں جانے کی سوچ رہے ہیں۔ آخر کار ڈاکٹر مصطفیٰ چمران نے سب کو دہلاویہ کے قریب اکھٹا کیا اور ایرج رستمی کی شہادت پر سب کو تعزیت و تسلئت عرض کرنے کے بعد کہا: خداوندمتعال رستمی کو چاہتا تھا لہذا انہیں اپنے بارگاہ میں بلا لیا اور اگر وہ ہمیں بھی دوست رکھتا ہو تو ہمیں بھی بلائے گا۔ المختصر ایک وقت ایسا آیا کہ آپ نے سب سپاہیوں سے خدا حافظی کی اور دشمن کے سامنے فرنٹ لائن پر لڑنے چلے گئے، جنگ مسلسل جاری تھی اور اسی اثناء میں دشمن کی طرف سے ایک گولی آپ کے سر پر لگی گولی لگتے ہی سپاہیوں کے درمیان نالہ و شیون برپا ہو گیا اور آپ کو فوری طور پر ایک ہسپتال پہنچایا گیا جس کا نام بعد میں چمران رکھا گیا  اس میں ابتدائی علاج کرنے کے بعد اہواز منتقل کرنا چاہا لیکن اہواز پہنچنے سے پہلے آپ کی روح پرواز کر گئی اور آپ شہید ہو گئے اور جس مالک حقیقی سے ملنے کی تمنا دل میں لئے ہوئے تھے اس سے جا ملے۔