امام خمینی (رح) کی اخلاقی اور تربیتی نصیحتیں

نفس کی سرکشی

عالم بشریت میں ہونے والے اختلافات کی بنیاد اسی خود پسندی، سرکشی اور طغیان کا جذبہ ہے

ID: 64454 | Date: 2020/05/26

امام خمینی (رح) کی اخلاقی اور تربیتی نصیحتیں


نفس کی سرکشی


انسانوں کے درمیان تمام اختلافات کی جڑ، بادشاہوں کے درمیان نزاع  اور جھگڑا کی بنیاد، طاقتوروں کے درمیان اختلاف کی وجہ طغیانی اور سرکشی ہے۔ وہی سرکشی جو اس کے نفس میں پائی جاتی ہے۔ اس کی جڑ یہی ہے کہ انسان نے خود کو ایک مقام اور منصب پر سمجھ لیا ہے؛ لہذا سرکشی کرتا ہے، من مانی کرتا ہے، جو دل میں آتا ہے وہ کرتا ہے، کبھی کسی دوسرے کی مصلحت کو نظر میں نہیں رکھتا؛ کیونکہ وہ اس مقام کے ملنے پر اکتفاء نہیں کرتا ہے۔  طغیان، ظلم و زیادتی کا سبب ہوتی ہے اور جب ظلم ہوگیا تو اختلاف خود بخود ہوجائے گا۔ اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ اعلی عہدیدار طغیان کررہا ہے یا نچلے درجہ کا معمولی کارکن ایسا کررہا ہے۔ (صحیفہ امام، ج 14، ص 390)


سرکشی اور طغیان انسان کی ایک صفت ہے۔ اگر سرکش نفس کو مہار نہ کیا گیا، اگر اسے لگام نہ لگائی گئی، اگر اس کا تزکیہ نہ ہوا تو یقینا وہ طغیان کی طرف جائے گا اور جب بھی اسے مقام و منصب مل جائے گا اس کی طغیانی اور سرکشی ظاہر ہونے لگے گی۔


اس لحاظ سے انسان کا نفس ہمیشہ تزکیہ، آراستگی اور یاددہانی کا محتاج ہے۔ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ جب تک انسان کسی منصب اور عہدہ پر نہیں ہے اس کے اندر یہ جذبہ نہیں ہے۔ لیکن جیسے ہی مقام پاجائے گا یا دولت پاجائے گا تو ماضی کو بھول جائے گا اور یہی اقتدار اور دولت اس کی طغیان اور سرکشی کا سبب بن جائے گی۔ نتیجتا وہ دوسروں پر ظلم و زیادتی کرنے لگے گا۔ اس کے مقابلہ میں اپنا تزکیہ اور خود سازی کرنے والے لوگ اپنے ماضی کو کبھی فراموش نہیں کرتے۔ وہ اپنی انسانی شخصیت اور پہچان کو کھوتے نہیں ہیں۔


عالم بشریت میں ہونے والے اختلافات کی بنیاد اسی خود پسندی، سرکشی اور طغیان کا جذبہ ہے۔ تمام انسانوں کے درمیان موجود اختلافات کی جڑ سرکشی، نفس پرستی، خود پسندی، غرور اور تکبر ہی ہے۔ انسان اسی میں گرفتار ہے یعنی خود اور اپنی نفسانی خواہشات کا اسیر ہے اگر انسان کا تزکیہ ہو، اگر نفس انسان کی تربیت ہو اور انسانیت کے جامہ میں ہو تو یہ سارے اختلافات ختم ہوجائیں  گے۔ (صحیفہ امام، ج 14، ص 391)


لیکن افسوس کہ دنیا میں موجود اکثر انسان اسی نفسانیت، سرکشی اور تکبر و خود پسندی کا شکار ہیں اور اپنے علاوہ دوسروں کے مفادات نظر میں نہیں رکھتے۔ جبکہ انسان، دوسرے انسان کا خیرخواہ ہو، دوسروں کے ساتھ بھلائی کی سوچے، دوسروں کا دفاع اور بچاؤ کرے، دوسروں کی عزت و ناموس کا بھرپور خیال  رکھے تو وہ خود بھی آسودہ رہے گا اور دوسرے افراد بھی۔


انسان کو اپنے ذاتی مفادات دوسروں کے حقوق کے پامال کرنے پر مجبور کرتے ہیں، خود غرضی اور خود پسندی جیسی لعنت انسان کو بے چارہ اور گنہگار بناتی ہے۔ خدا ہم سب کو ان بری صفات سے محفوظ رکھے۔ آمین۔