صدر اسلام میں حکام اور عوام کے درمیان تعلقات

کسی بھی ملک کےحاکم اور عام آدمی میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود حکومت کے سربراہ تھے اور لوگوں کے ساتھ ان کا برتاو ایسا تھا کہ آپ مسجد اقصی میں عام لوگوں کے ساتھ بیتھ کر اُن کے مسائل سنتے اور حل کرتے تھے اور اگر کوئی اجنبی باہر سے آتا تھا تو اسے وہاں پر موجود لوگوں سے سوال کرنا بڑتا تھا کہ آپ میں سے سر براہ اور حاکم کون ہے امیر المومنین علیہ السلام کے زمانے میں بھی حاکم عدالت میں حاضر ہوا تھا اور جج نے جب علی علیہ السلام کا احترام کرنا چاہا تو آپ نے منع کر دیا اور فرمایا کہ آپ کو میرا احترام کرنے کا حق نہیں ہے ہم دونوں آپ کی عدالت میں ہیں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے اس کے جج نے علی علیہ السلام کے خلاف اپنا فیصلہ سنایا جس کو علی علیہ السلام نے خندہ پیشانی سے قبول کر لیا۔

ID: 64186 | Date: 2020/04/30

صدر اسلام میں حکام اور عوام  کے درمیان تعلقات


کسی بھی ملک کےحاکم اور عام آدمی میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے  رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود حکومت کے سربراہ تھے اور لوگوں کے ساتھ ان کا برتاو ایسا تھا کہ آپ مسجد اقصی میں عام لوگوں کے ساتھ بیتھ  کر اُن  کے مسائل سنتے اور حل کرتے تھے اور اگر کوئی اجنبی باہر سے آتا تھا تو اسے وہاں پر موجود لوگوں سے  سوال کرنا بڑتا تھا کہ آپ میں سے سر براہ اور حاکم کون ہے  امیر المومنین علیہ السلام کے زمانے میں بھی حاکم عدالت میں حاضر ہوا تھا اور جج نے جب علی علیہ السلام کا احترام کرنا چاہا تو آپ نے منع کر دیا اور فرمایا کہ آپ کو میرا احترام کرنے کا حق نہیں ہے ہم دونوں آپ کی عدالت میں ہیں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے اس کے جج نے علی علیہ السلام کے خلاف اپنا فیصلہ سنایا جس کو علی علیہ السلام نے خندہ پیشانی سے قبول کر لیا۔


امام خمینی پورٹل کی رپورت کے مطابق اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی(رح) نے 5 اردیبھشت 1358 ہجری شمسی کو قم میں فوج کے اعلی حکام سے ایک ملاقات کے دوران فرمایا کہ کسی بھی ملک کےحاکم اور عام آدمی میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے  رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود حکومت کے سربراہ تھے اور لوگوں کے ساتھ ان کا برتاو ایسا تھا کہ آپ مسجد اقصی میں عام لوگوں کے ساتھ بیتھ  کر اُن  کے مسائل سنتے اور حل کرتے تھے اور اگر کوئی اجنبی باہر سے آتا تھا تو اسے وہاں پر موجود لوگوں سے  سوال کرنا بڑتا تھا کہ آپ میں سے سر براہ اور حاکم کون ہے  امیر المومنین علیہ السلام کے زمانے میں بھی حاکم عدالت میں حاضر ہوا تھا اور جج نے جب علی علیہ السلام کا احترام کرنا چاہا تو آپ نے منع کر دیا اور فرمایا کہ آپ کو میرا احترام کرنے کا حق نہیں ہے ہم دونوں آپ کی عدالت میں ہیں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے اس کے جج نے علی علیہ السلام کے خلاف اپنا فیصلہ سنایا جس کو علی علیہ السلام نے خندہ پیشانی سے قبول کر لیا۔


رہبر کبیر انقلاب اسلامی نے فوج کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرمایا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے اصحاب  کے زمانے مین بھی فوج عوام کے لئے تھی اور عوام فوج کی ہمدرد تھی اس وقت بھی وہی نقشہ ہونا چاہیے ہم سب اسلام پر فدا ہیں اور ہم سب ایک دوسرے کے لئے ہیں میں آپ سب کا اسلام کے خدمت گزاروں کا  شکر گزار ہوں آپ ہی تھے جو ایران کی مظلوم عوام کے ساتھ ملحق ہوے تھے آپ نے اور آپ کی مظلوم عوام نے ملک کر شیطانی طاقت کو شکست دی ہے۔


اسلامی تحریک کے راہنما نے فوج کو نصیحت کرتے ہوے فرمایا کہ  اسلام کی نظر میں آپ کا ایک خاص احترام ہے مجھے امید ہیکہ آپ اس اتحاد کو اسی طرح قائم رکھیں گئے کیوں اگر ہماری فوج کمزور ہو گئی تو ہمارا ملک بھی کمزور ہوجاے گی فوج کی طاقت میں ہی ملک کی طاقت ہے ہم سب کو ایک آوام ہو کر اسلام کے حق میں آواز اُٹھانی ہو گی اسلامی قوانین کے نافذ ہوتے ہی آپ سب کو اپنا حق مل جاے گا ہمیں اس حساس وقت تفرقہ اور ہر قسم کے اختلاف سے پرہیز کرنا ہو گی۔