شہریت ترمیم قانون پر روک لگانے سے بھارتی سپریم کورٹ کا انکار

چھوٹے بچوں کے ساتھ دھرنے میں شرکت

ID: 62728 | Date: 2020/01/22

 شہریت ترمیم قانون پر روک لگانے سے سپریم کورٹ کا انکار


نیی دہلی 22 جنوری (اردولیکس)سپریم کورٹ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف داخل کردہ درخواستوں کی آج سماعت ہوئی ۔عدالت نے اس پر روک لگانے سے انکار کردیا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون سے متعلق تاحال سپریم کورٹ میں 144 درخواستیں داخل کی گئیں۔ کئی درخواست گزاروں نے اس قانون کی مخالفت کرتے ہویے شہریت ترمیمی قانون کو غیر آئینی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں این آر سی اور این پی آر کو بھی کچھ درخواستوں میں چیلنج کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے ، جسٹس عبدالنظیر ، جسٹس سنجیو کھنہ کی بنچ ان درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت نے مرکز کو نوٹس جاری کرتے ہویے چار ہفتوں میں جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ تمام درخواستوں میں سے صرف 60 درخواستوں پر سماعت ہویی امکان ہے کہ یہ معاملہ آینی بنچ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔


واضح رہے کہ ادہر مبرا میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)، این آر سی اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کے خلاف دہلی کے شاہین باغ طرز پر ممبرا میں پیر سے ۲۴؍ گھنٹے جاری رہنے والا ’ماؤں ، بہنوں اور طالبات ‘کا دھرنا دوسرے روز بھی جاری رہا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر متعدد خواتین بھی اس مظاہرے میں شریک ہو ئیں ۔ دھرنے میں نہ صرف ممبرا اور ممبئی کے مختلف علاقوں سے خواتین و طالبات یہاں آ رہی ہیں بلکہ کانپور سے دلت تنظیم سے وابستہ ۶؍ خواتین بھی یہاں پہنچیں اور رات بھر احتجاج میں شامل رہیں ۔ دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبات نے ممبرا پہنچ کر شاہین باغ جیسے اس مظاہرے کی حمایت کی۔


 منگل کو ممبرا کوسہ کے علماء اور ڈاکٹروں کی تنظیموں کے علاوہ متعدد سیاسی ، غیر سیاسی تنظیموں اور عوامی نمائندوں نے بھی دھرنے میں شرکت کی اور سیاہ قانون کے خلاف نعرے لگائے۔


 دھرنے پر بیٹھی خواتین اور بچوں کیلئے پینے کا پانی، بسکٹ ، پھل اور کھانے کے پیکٹ کی تقسیم کا بھی مقامی افراد کی جانب سے نظم کیا گیا تھا۔ایک ۸؍ تا ۹؍ سال کا لڑکا جے این یو کا ’آزادی‘ والا نعرہ لگا رہا تھا جس کا حاضرین جواب دے رہے تھے۔


تقریباً ۴۰؍ خواتین نے رات بھردھرنادیا


 دھرنے میں شامل ریحانہ شیخ نے بتایاکہ مظاہرے میں ماؤں ، بہنوں اور طالبات کی شرکت کا سلسلہ جاری ہے۔پیر کو ۳۵؍ تا ۴۰؍  خواتین اپنے گھر نہیں گئیں اورمظاہرہ گاہ میں ہی رات گزاریں ۔کانپور سے راج ماتا جیجاؤ سنگٹھنا نامی تنظیم سے تعلق رکھنے ۶؍ خواتین بھی ہم سے ملاقات کرنے آئی تھیں ۔ ان کے علاوہ ممبئی کی ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس کے طلبہ بھی آئے تھے ۔ وہ بھی رات بھر دھرنے پر ہی تھے۔


ملک کے عوام کو فرقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش


 دھرنے کی حمایت میں علمائے کرام کا ایک وفد بھی پہنچاتھا۔ ان ہی میں شامل ممبرا جامع مسجد کے خطیب و امام قادری عطاءاللہ قادری نے کہا کہ ’’ہمارا ملک جمہوری ہے جہاں ہر مذہب کے لوگ بڑے سکون اور اطمینان کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں لیکن یہ سیاہ قانون لاکر انہیں آپس میں لڑانے کی سازش کی جارہی ہے اور ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہم اس سیاہ قانون کے خلاف دھرنا دے کر ’مسلم ہندو،سکھ ، عیسائی سب آپس میں بھائی بھائی ‘کا نعرہ دے کر حکومت سے سیاہ قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔‘‘مولانا نے اس طرح کے مظاہرے میں شریک ہر مذہب کی خواتین کی ستائش بھی کی۔


چھوٹے بچوں کے ساتھ دھرنے میں شرکت


 چھوٹے بچے کو گود میں لئے ہوئے دھرنے میں بیٹھی عشرت انصاری نے بتایاکہ صبح اپنے ۲؍ بچوں کو اسکول چھوڑ کر اس چھوٹی بچی کو ساتھ لے کر این آر سی، سی اے اے اور این پی آر کے خلاف اس دھرنے میں شامل ہوئی ہوں ۔ جب ہم یہاں پیدا ہوئے ، پلے بڑے اور ہمارے بزرگ اسی ملک کی مٹی میں دفن ہوئے، اس کے باوجود ہمیں اپنی شہریت ثابت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔ہم نہیں چاہتے کہ این آر سی اور شہریت قانون کسی پر بھی نافذ ہو۔