قرائت کا صحیح ہونے کا معیار کیا ہے؟

قرأت کے صحیح ہونے کا معیار یہ ہے کہ حروف کو ان کے مخارج کے ساتھ اس طرح ادا کیا جائے کہ اہل زبان کہیں

ID: 62667 | Date: 2020/02/11

سوال) قرائت کا صحیح ہونے کا معیار کیا ہے؟


جواب) قرأت کے صحیح ہونے کا معیار یہ ہے کہ حروف کو ان کے مخارج کے ساتھ اس طرح ادا کیا جائے کہ اہل زبان کہیں : اس شخص نے فلاں  حرف ادا کیا ہے کوئی اور حرف نہیں ، اسی طرح اصل حرکات اور وہ چیز کہ جسے اس لفظ کی ہیٔت اور شکل میں  دخل ہے، اس کاخیال رکھا جائے۔ نیز علماء عرب ( علماء نحو وصرف) کے بیان کردہ طریقے کے مطابق حرکت، سکون، معرب اور مبنی کا بھی لحاظ رکھا جائے اور ہمزہ وصل جب بین کلام واقع ہو جیسے ’’ ال‘‘ اور ’’ اھدنا‘‘ کا ہمزہ تو احتیاط واجب کی بناء پر ( قرأت میں) حذف کردیا جائے گا جب کہ ہمزہ قطع باقی رہے گا، مثلاً ’’ انعمت ‘‘ کا ہمزہ حروف کے مخارج کو متعین کرنے کے لئے علماء تجوید کی باریک بینیوں  کا لحاظ رکھنا ضروری نہیں  ہے چہ جائیکہ ان چیزوں  کا لحاظ رکھنا ضروری ہو کہ جن کی برگشت حروف کی صفات کی طرف ہوتی ہے جیسے ’’ شدت ‘‘ ’’ نرمی‘‘ ’’ ضخامت ‘‘ ’’ ملائمت ‘‘ اور بلندی وغریہ نیز ادغام کبیر کا لحاظ رکھنا بھی ضروری نہیں  اور اس سے مراد متحرک حرف کو ساکن کرنے کے بعد اسے مماثل حرف میں  مدغم کردیا جانا ہے جب کہ دونوں  حروف دوکلموں  میں  ہوں۔ جیسے ’’ یعلم مابین ایدیھم‘‘ میں  ’’ یعلم ‘‘ کی میم کو ’’مابین ‘‘ والی میم میں  مدغم کرنا یا اس کے قریبی حرف میں  مدغم کرنا اگرچہ وہ ایک کلمہ میں  ہی کیوں  نہ ہو( جیسے ’’یرزقکم‘‘ اور ’’خرج عن النار‘‘ میں  قاف کو کاف اور حاء کو عین میں  ادغام کرنا بلکہ احتیاط یہ ہے کہ اس قسم کے ادغام کرنے کو بالخصوص اپنے قریبی حرف میں  ترک کرنا چاہئے حتی ادغام صغیر کی بعض قسام کا لحاظ رکھنا بھی ضروری نہیں  ہے مثلاً ایسے حرف کا کہ جو بالکل ساکن ہے اپنے قریبی حرف میں  ادغام کرنا جیسے ’’ من ربک ‘‘ کے نون کو ’’را‘‘ میں  ادغام کرے، لیکن احتیاط یہ ہے کہ مدّ لازم کا لحاظ رکھے اور مدّ لازم سے مراد حرف مدّ اور اس کے دو سبب یعنی ہمزہ اور سکون کا ایک لفظ میں  جمع ہوجانا ہے، جیسے ’’جاء ‘‘ اور ’’سوئ‘‘ اور ’’ جی‘‘’’دابۃ‘‘ ’’ق‘‘اور ’’ ص ‘‘ اور حرکت دار حرف پر وقف کرنے، حرف ساکن کو ملانے اور ’’ یرملون‘‘ کے حروف میں  تنوین اور لفظ ساکن کو مدغم کرنے کا بھی یہی حکم ہے اگرچہ میری نظر میں  راجح یہ ہے کہ مذکورہ چیزوں  میں  سے کسی کا لحاظ رکھنا ضروری نہیں  ہے۔


تحریر الوسیلہ، ج 1، ص 184