امام خمینی (رہ) دوسروں جیسے نہیں

امام خمینی (رہ) کی تاریخی خصوصیات اور ان کی جانب سے برپا کیا جانے والا انقلاب اپنے زمانہ کی تمام تحریکوں اور انقلابوں میں اپنی مثال آپ ہے۔

ID: 61801 | Date: 2019/11/25

امام خمینی (رہ) دوسروں جیسے نہیں


امام خمینی (رہ) کی تاریخی خصوصیات اور ان کی جانب سے برپا کیا جانے والا انقلاب اپنے زمانہ کی تمام تحریکوں اور انقلابوں میں اپنی مثال آپ ہے۔ امام خمینی (رہ) عالم سیاست و حکومت میں یقیناً ایک انقلابی و سیاسی رہبر شمار ہوتے ہیں جنہوں نے ایران جیسے ملک میں ایک عظیم الشان انقلاب کامیابی سے ہمکنار کیا۔ انہوں نے ایک ایسے حکومتی نظام کی بنیاد ڈالی جو ابھی تک قائم و دائم ہے۔ اس بنا پر اگر ہم امام خمینی (رہ) کا دنیا کی دوسری انقلابی و سیاسی شخصیات سے موازنہ کریں تو یقیناً ہم نے ایک غیر مناسب عمل انجام دیا ہے۔ موازنہ میں ہمیشہ مشترکہ اور متمایزہ صفات کو مد نظر رکھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ہم امام خمینی (رہ) کا دنیا کی دوسری سیاسی و انقلابی شخصیات سے موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ متمایزہ صفات مشترکہ صفات سے زیادہ ہیں جو امام (رہ) کے وجود میں نظر آتی ہیں اگر ہم امام (رہ) کی نوجوانی اور تعلیم کے زمانہ کو مد نظر رکھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ امام (رہ) کی رشد و نمو کی روحانی و فکری فضا دنیا کی دوسری سیاسی و انقلابی شخصیات سے شباہت نہیں رکھتیں۔ انہوں نے اپنی عمر کے دسیوں سال علم و تحقیق و تألیف میں بسر کئے لیکن یونیورسٹی نامی چیز کیا بلکہ ایسے اسکول میں بھی انہوں نے تعلیم حاصل نہیں کی جسے وقتی حکومت کی جانب سے سرکاری طور پر پہچانا گیا ہو۔ ان کا سبجیکٹ بھی علوم سیاسی، علوم اجتماعی اور تاریخ وغیرہ بھی تھا۔ امام خمینی (رہ) جوانی کے آغاز سے ہی صاحب فکر و ایک سیاسی انسان تھے اور انہوں نے اس میدان میں سیاسی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں لیکن دنیا کی دوسری انقلابی اور سیاسی شخصیات کی طرح تحریک کا آغاز جوانی میں نہیں بلکہ ساٹھ سالہ زندگی بسر کرنے کے بعد کیا۔ اگر سیاسی میدان میں ان کی سرگرمیوں کو مد نظر رکھا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی سیاسی گروہ یا حزب کے رکن نہیں تھے اور اپنے انقلاب میں بھی دنیا کے دیگر انقلابوں کی طرح کوئی تنظیم نہیں بنائی نیز اپنے دشمنوں کو نیست و نابود کرنے میں مسلحانہ قدم نہیں اٹھایا۔ نیز انہوں نے اپنے انقلاب میں کسی ایک خاص گروہ کو مخاطب قرار نہیں دیا جیسے زمانہ کے معمول کے مطابق دنیا کی شخصیات ایسا کرتی رہی ہیں یہاں تک کہ انہوں نے اپنے انقلاب اور تحریک میں مروجہ سیاسی محاوروں اور الفاظ کو بھی استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے انقلابی تحریک میں ایک ایسی روش کا انتخاب کیا کہ جس کی مثال گذشتہ تاریخ میں نہیں ملتی اسی طرح حکومت کی تشکیل میں انہوں نے ایک جدید نظریہ کو پیش کیا۔ انہوں نے انقلابی کامیابی میں انسانی فطرت کے مطابق عمل انجام دیا اور پوری قوم کو جھوٹوں، ستمگروں، ظالموں، مفسدوں اور شیطان صفت انسانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مدعو کیا۔ پوری قوم نے بھی ان کی باتوں کو سمجھتے ہوئے ان کی آواز پر لبیک کہا، اسی وجہ سے کسی ایک گروہ کو دعوت دینے کے بجائے انہوں نے پوری قوم کو دعوت دی اور سب نے بغیر کسی مذہب و ملت کے ان کی فرمانبرداری کی۔


حکومت کی تشکیل میں بھی انہوں جس سیاسی فلسفہ پر تکیہ کیا وہ دیگر مروجہ و معمولی فلسفوں کے مشابہ نہیں تھا، انہوں نے دینی حکومت کی تشکیل اور سیاست و حکومت میں دین کو داخل کرنے کے لئے مکمل کوشش کی اور اس میں انہیں کامیابی بھی نصیب ہوئی جبکہ کئی صدیوں سے عملی اور نظری طور پر پوری نیا میں تبلیغ کی جا رہی تھی کہ دینی حکومت کا زمانہ ختم ہو گیا ہے اور دینی حکومت ایسی فکر ہے جس کا تعلق درمیانی صدیوں سے ہے۔ لیکن وہ اپنی مثال آپ تھے اور اسلامی جمہوریت کے خواہاں تھے جس میں نہ ایک لفظ کم ہو اور نہ زیادہ۔ امام خمینی (رہ) اپنی افکار و روش اور عمل میں مکمل طور پر مستقل تھے، ۱۳۵۸ھ،ش میں مہندس بازرگان، حامد الگار کے ساتھ گفتگو میں امام خمینی (رہ) پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں: خمینی (رہ) ایک ایسے شخص ہیں جو ہمارے موجودہ نظام کو ہرگز تسلیم کرنے کے لئے حاضر نہیں اور ہمارے اوپر تہمت لگائی جاتی ہے کہ ہم مغربی طاقتوں کو اپنا نمونہ بنا رہے ہیں۔ امام خمینی (رہ) مغربی ڈموکراسی کو صحیح نہیں سمجھتے تھے اور اسی طرح مغربی نظام پر بھی تنقید کرتے تھے کہ مغربی نظام ہمارے لئے قابل قبول نہیں اسی طرح ڈاکٹر یزدی بھی امام خمینی (رہ) سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ہم بعض اوقات امام (رہ) سے کہتے تھے کہ آپ ایک رہبرِ کل کی حیثیت سے ایک دفتر کے مالک ہونے چاہئے کیونکہ آپ (رہ) ایک صدر سے بالاتر ہیں اور اس دفتر میں آپ کا ایک ترجمان ہونا چاہئے جو لوگوں تک آپ کی بات پہنچائے اور لوگو اپنی ذمہ داری کا احساس کریں لیکن امام (رہ) ہرگز اس طرح کی باتوں کو قبول نہیں کرتے تھے۔ ( ڈاکٹر حامد الگار کے ساتھ مہندس بازرگان کی گفتگو جو ۲۰ آذر سن ۱۳۵۸ ھ،ش میں انجام پائی اور اسے مجلہ نصر میں سن ۱۳۵۹ھ،ش میں چھپوایا گیا)۔


امام خمینی (رہ) اور دوسرے سیاسی و انقلابی رہبروں و قائدوں میں جو نمایاں فرق پایا جاتا ہے وہ حقیقت میں اسلام و ایمان کی نسبت ان کی شناخت پر مشتمل ہے۔ انہوں نے اسلام کو صحیح معنی میں سمجھا اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ مجسمہ اسلام تھے اور دین اسلام میں استقلال، آزادی ان کے وجود میں جلوہ نما تھی ان کے لئے جو چیز اصل تھی وہ ہرگز دوسروں کی مخالفت نہیں تھی بلکہ ان کے نزدیک اصل چیز اسلام سے وفادری اور اس کے اصولوں اور اقدار اور آرزوؤں کے مطابق عمل پیرا ہونا تھا اور اگر اس طرح کی وفاداری میں ان کے نظریات دوسروں کے مطابق ہوتے تھے تو اس میں کسی طرح کی ممانعت نہیں جیسا کہ اگر ان کا کوئی نظریہ دوسروں کے مخالف ہوتا تو ہرگز ان کے دل میں رعب و وحشت طاری نہیں ہوتی تھی۔ اسلام کے بارے میں ان کا عالمانہ اور عاقلانہ یقین اس چیز کا سبب بنا کہ وہ دنیا کے سیاسی و انقلابی رہبروں و قائدوں کے برخلاف مغربی دنیا کی سیاسی روشوں کے مقلد نہیں تھے۔ وہ خود پر بھروسہ رکھتے تھے کیونکہ وہ خدا پر بھروسہ رکھتے تھے، اپنے نفس پر اعتماد کا منشأ بھی اپنے پروردگار پر اعتماد تھا وہ خود کہتے ہیں: اے دنیا کے مسلمانو! اسلام کی حقیقت پر ایمان رکھتے ہوئے قیام کرو  اور پرچم توحید اور اسلامی تعلیمات کے سایہ میں جمع ہو جاؤ اور اپنے ممالک سے خیانتکاروں کو باہر نکال دو جو ہمارے ممالک میں ذخائر جمع کرنے آئے ہیں، نفسانی خواہشات اور تفرقہ و جدائی سے پرہیز کرو کہ تمہارے پاس سب کچھ موجود ہے اسلامی ثقافت پر تکیہ کرتے ہوئے مغرب اور مغربی یلغار کا مقابلہ کرو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرو اور اپنی حیثیت کو پاؤ۔ ۔ ۔  آج تمام اقوام کی تحریک کا زمانہ ہے اے مسلمانو! پائداری کا ثبوت دیتے ہوئے انسانیت کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دو اگر خداوندمتعال کی جانب رخ کرو گے اور اسلامی تعلیمات سے فیضیاب ہو گے تو خدا کا عظیم الشان لشکر تم لوگوں کے ساتھ ہے۔ (صحیفه نور، جلد 13، ص 83، بیت الحرام کے زائروں کو دئے گئے پیغام کا ایک حصہ )۔


ایک اور مقام پر امام (رہ) فرماتے ہیں: کوئی بھی قوم اس وقت تک آزادی حاصل نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنے آپ کو نہ پا لے اور جب تک قومیں اپنے آپ کو نہیں پائیں گی تو دوسرے ان پر حکومت کرتے رہیں گے، نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارا ملک اسلامی حقوق، اسلامی قاضیوں اور اسلامی ثقافت کے باوجود ثقافت و حقوق میں مغربی دنیا کو اپنا نمونہ عمل بنا رہا ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مغربی دنیا کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں اور یہی چیز ہماری قوم اور دوسری اقوام کی بد بختیوں کا سبب ہے اور اس کے خاتمہ کے لئے کافی وقت درکار ہے مشرقی دنیا اپنی ثقافت کھو چکی ہے اور اگر تمہیں آزادی چاہئے اور مستقل طور پر زندگی بسر کرنا چاہتے ہو تو استقامت اور پائداری کا ثبوت دینا ہوگا۔ ہمارے نوجوانوں، دانشوروں اور یونیورسٹیز کے اساتذہ کو مغربی دنیا سے کسی قسم کے خطرہ کو محسوس نہیں کرنا چاہئے انہیں ارادہ کرنا چاہئے اور مغرب سے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے۔ ( صحیفہ نور، جلد 11، ص 186،  13/10/58 ۱۳ میں ایک گروہ کے ساتھ گفتگو )۔


اپنے نفس، اپنی لیاقتوں اور قومی توانائیوں پر بھروسہ سبب بنا کہ امام خمینی (رہ) نے دشمنوں کی دھمکیوں پر کوئی توجہ نہیں دی اور اپنی قوم سے خطاب میں فرمایا: جب تک وابستہ رہو گے ہرگز آزادی و استقلال حاصل نہیں کر پاؤ گے، استقلال و آزادی میں کوئی خطرہ نہیں ہم جب تک آزاد نہیں تھے تمام قسم کی مشکلات میں گرفتار تھے اور اب آزادی کے ساتھ مستقل بھی ہیں۔ ( صحیفۂ نور، جلد 9، ص 239 )۔


امام خمینی (رہ) ہمیشہ نئے قدم اٹھاتے تھے مثال کے طور پر ہم ان کی جانب سے انجام دئے گئے دو نمونوں کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں جن میں ایک گورباچف کو لکھا گیا خط اور دوسرا سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ تھا اور سب سے تعجب انگیز چیز یہ ہے کہ ان تمام استثنائی صفات کے پائے جانے کے با وجود آپ (رہ) تمام قسم کے افراد بالخصوص نوجوانوں سے گہرا رابطہ رکھتے تھے اس سلسلہ میں بھی مھدی بازرگان کی گفتگو غور طلب ہے: مجھے تعجب ہوتا کہ ایک ستر اسّی سالہ انسان کا نوجوانوں سے اتنا گہرا رابطہ ہے جتنا مجھ جیسے افراد کا نہیں جنہوں نے ساری زندگی یونیورسٹیز میں بسر کی اور وہاں ہی پلا اور بڑھا ہوں ہمیشہ نوجوانوں میں رہا ہوں اور انقلاب و تحریک میں، میں نے رشد و نمو پایا ہے، ان کے اور نوجوانوں کے درمیان ایک قابل غور خصوصیت پائی جاتی ہے جو انقلاب پر مبنی ہے میں اپنے اور انقلاب میں موجودہ افراد یعنی نوجوانوں کے درمیان اجنبیت محسوس کرتا ہوں چاہے وہ یونیورسٹیز کے جوان ہوں یا سپاہ کے، لیکن امام خمینی (رہ) اور ان کے درمیان گہرے روابط ہیں۔ ( حامد الگار کی مھندس مھدی بازرگان کے ساتھ گفتگو، ص۱۲ و ۱۳)۔


امام خمینی (رہ) اچھے طریقے سے جانتے تھے کہ مغربی دنیا پر ہرگز بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اس تحریک میں اگر مغربی دنیا کی مانی جائے تو یقیناً ہمیں شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا اسی وجہ سے انہوں نے جدید قوانین و قواعد ایجاد کئے۔  موجودہ دور میں ان کا ہمارے لئے یہ پیغام ہے کہ ان کی جانب سے برپا کئے جانے والے انقلاب کو مغربی دنیا کے معیاروں پر نہیں پرکھا جا سکتا اور اس کی اہمیت و قیمت مغربی میزانوں پر نہیں تولی جا سکتی امام خمینی (رہ) نے ہمیں وہ چیز یاد دلائی جو تمام انسان بھول چکے تھے یقیناً وہ دوسروں کی طرح نہیں، ان کا انقلاب بھی دوسروں کے انقلاب کی مانند نہیں تھا البتہ قابل غور بات ہے کہ ان کے استقلال اور آزادی کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ انہوں نے بغاوت و سرکشی کی ہو کیونکہ دوسروں سے ہٹ کر جدید روشیں اور طریقے اپنائے، اب ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ ہم ان کی راستہ کو کبھی نہ بھولیں اور ان کے قواعد و ضوابط پر عمل پیرا ہوں انہوں نے ہمیں خداوندمتعال سے آشنا کروایا تا کہ ہم اپنے حقیقی خدا کو بہتر انداز میں پہچان لیں المختصر یہ کہ وہ آئے تا کہ اس قرآنی پیغام کو ہمارے کانوں تک پہنچائیں: ولا تکونوا کالذین نسوا الله فانسیهم انفسهم۔ ترجمہ: اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے خدا کو بھلادیا تو خدا نے خود ان کے نفوس کو بھی بھلا دیا۔


منبع: hawzah.net