قرآن کی روشنی میں اتحاد کے طریقے

عالمِ اسلام میں اتحاد ایک اہم مسئلہ ہے جس کے بارے میں دینی تعلیمات بالخصوص قرآن کریم نے بہت زیادہ تاکید کی ہے کیونکہ تفرقہ انسانی کمال میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسلامی معاشرہ بھی اسی صورت میں کمال کی جانب حرکت کرے گا جب اتحاد کے راستے میں موجودہ رکاوٹیں ہٹا دی جائیں۔ سیرت پیغمبر اکرمؐ اور ان کے اہلبیتؑ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اتحاد کو مد نظر رکھا اور تفرقہ و اختلاف سے پرہیز کیا۔ قرآن کریم نے اتحاد کے سلسلہ میں کچھ طریقے بتائے ہیں جنہیں مختصر طور پر ہم یہاں بیان کر رہے ہیں:

ID: 61626 | Date: 2019/11/13

قرآن کی روشنی میں اتحاد کے طریقے


عالمِ اسلام میں اتحاد ایک اہم مسئلہ ہے جس کے بارے میں دینی تعلیمات بالخصوص قرآن کریم نے بہت زیادہ تاکید کی ہے کیونکہ تفرقہ انسانی کمال میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسلامی معاشرہ بھی اسی صورت میں کمال کی جانب حرکت کرے گا جب اتحاد کے راستے میں موجودہ رکاوٹیں ہٹا دی جائیں۔ سیرت پیغمبر اکرمؐ اور ان کے اہلبیتؑ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اتحاد کو مد نظر رکھا اور تفرقہ و اختلاف سے پرہیز کیا۔ قرآن کریم نے اتحاد کے سلسلہ میں کچھ طریقے بتائے ہیں جنہیں مختصر طور پر ہم یہاں بیان کر رہے ہیں:


۱۔ مشترکہ نکات پر توجہ: اسلامی اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان مشترکہ، ثابتہ اور مسلمہ اصول کی بنا پر ہر مسلمان کے مذہب کا احترام کرتے ہوئے آپسی ہمکاری کا پایا جانا جس کے نتیجہ میں امت مسلمہ اپنے عالی مقاصد و مصالح تک پہنچ سکے۔ قرآن کریم میں کچھ آیات پائی جاتی ہیں جن میں خداوندمتعال تمام انسانوں کو مشترکہ نقاط کی جانب متوجہ کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: يَأَيهُّا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكمُ مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَ خَلَقَ مِنهْا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنهْمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَ نِسَاءً  وَ اتَّقُواْ اللَّهَ الَّذِى تَسَاءَلُونَ بِهِ وَ الْأَرْحَامَ  إِنَّ اللَّهَ كاَنَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (نساء/۱) ترجمہ: انسانو! اس پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور اس کا جوڑا بھی اسی کی جنس سے پیدا کیا ہے اور پھر دونوں سے بکثرت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دئیے ہیں اور اس خدا سے بھی ڈرو جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کی بے تعلقی سے بھی- اللہ تم سب کے اعمال کا نگراں ہے۔ مذکورہ آیت میں اس نکتہ کی جانب متوجہ کیا ہے کہ خداوند عالم نے انسانوں کو خاک سے پیدا کیا ہے۔ بعض آیات میں ملتا ہے کہ ایک ماں اور باپ سے پیدا کیا ہے۔ حتی اہل کتاب کو بھی مشترکہ نکات پر توجہ دینے کی تاکید کی گئی ہے: إِنَّ اللَّهَ كاَنَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًاقُلْ يَأَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلىَ‏ كَلِمَةٍ سَوَاءِ  بَيْنَنَا وَ بَيْنَكمُ‏ْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَ لَا نُشرِكَ بِهِ شَيْاً (آل عمران/۶۴) ترجمہ: اے پیغمبر آپ کہہ دیں کہ اہلِ کتاب آؤ ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کرلیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں۔ خداوندمتعال جب اہل کتاب کو مشترکہ نکات کی جانب توجہ دلاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو تو اس مسئلہ میں اولویت حاصل ہے۔


۲۔ خدائی رسّی کو مضبوطی سے پکڑنا: قرآن کریم اپنی ایک واضح ترین آیت میں اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے تمام مؤمنین کو خدائی رسّی کو مضبوطی سے پکڑنے اور تفرقہ ایجاد نہ کرنے کی تاکید کرتا ہے: وَ اعْتَصِمُواْ بحِبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَ لَا تَفَرَّقُواْ (آل عمران/۱۰۳) ترجمہ: اور اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو۔ اسی طرح سورۂ نساء کی ۱۴۶ اور ۱۷۵ ویں آیت اور آل عمران کی ۱۰۱ ویں آیت میں بھی تفرقہ سے پرہیز کرنے کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ البتہ اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کی رسّی سے مراد کیا ہے؟ اس کے بارے میں مفسّرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے تفاسیر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد قرآن، سنتِ پیغمبرؐ، توحید خالص، اطاعتِ خدا اور ولایت اہلبیتؑ وغیرہ ہے۔ لیکن تفاسیر میں سب سے نزدیک تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے۔ جیسا کہ رسول اکرمؐ سے منقولہ روایت اس کی تائید کرتی ہے کہ قرآن خدا کی رسّی ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان کھچی ہوئی ہے۔ نیز قرآن کو ثقل اکبر کے نام سے متعارف کرانا بھی اسی دعوی کی دلیل ہے۔ علامہ طباطبائی نے بھی روش تفسیرِ قرآن بہ قرآن میں"حبل اللہ" کا ایک اہم مصداق قرآن کریم کو ذکر کیا ہے۔


۳۔ سنّتِ پیغمبرؐ اور اہلبیتؑ کی طرف رجوع: خداوندمتعال نے قرآن کریم کو مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور بھائی چارہ کا محور قرار دینے کے علاوہ سنّتِ پیغمبر اکرمؐ اور اہلبیتؑ کی طرف رجوع کو بھی آپسی اتحاد کے راستہ کے عنوان سے پہچنوایا ہے: فَإِن تَنَازَعْتُمْ فىِ شىَ‏ْءٍ فَرُدُّوهُ إِلىَ اللَّهِ وَ الرَّسُول ( آل عمران/۵۹) ترجمہ: پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو۔ سنّت رسولؐ قرآن کی شارح کے عنوان سے قرآن کو سمجھنے میں بہت سے ابہامات و اشتباہات کو برطرف کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم ائمہ معصومینؑ کو "اولی الامر" کے نام سے پکارتا ہے اور اس نے ان کی گفتگو کو حجت قرار دیتے ہوئے ان کی اطاعت کو رسول خداؐ کی اطاعت کے ساتھ ذکر کیا ہے "أَطِيعُواْ اللَّهَ وَ أَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلىِ الْأَمْرِ مِنكم" اس طریقہ سے مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اختلافی موارد میں ان کی جانب رجوع کیا جائے۔ نیز حدیث نقلین میں اہلبیتؑ کو قرآن کا ہم پلہ قرار دینے سے بھی اتحاد اور بھائی چارگی کے سلسلہ میں ان کا کردار ثابت ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک اور مقام پر قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: وَ أَطِيعُواْ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ لَا تَنَزَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَ تَذْهَبَ رِيحُكمُ‏ْ وَ اصْبرُواْ  إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابرِين (انفال/۴۶) ترجمہ: اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑ جاؤ اور تمہاری ہوا بگڑ جائے اور صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔


۴۔ امر بہ معروف اور نہی از منکر: قرآن کریم مسلمانوں کو تفرقہ سے دور رہنے کے بعد ان سے مطالبہ کرتا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے " وَ لْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلىَ الخَيرِ وَ يَأْمُرُونَ بِالمعْرُوفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَ أُوْلَئكَ هُمُ الْمُفْلِحُون (آل عمران/۱۰۴) ترجمہ: اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے نیکیوں کا حکم دے برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں۔  اس کے بعد فوراً انہیں خبردار کرتا ہے کہ" وَ لَا تَكُونُواْ كاَلَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَ اخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ  وَ أُوْلَئكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيم( آل عمران/۱۰۵) ترجمہ: خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے تفرقہ پیدا کیا اور واضح نشانیوں کے آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا کہ ان کے لئے عذابِ عظیم ہے۔ مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ امر بہ معروف اور نہی از منکر اتحاد ایجاد کرنے اور تفرقہ سے پرہیز کرنے کے بارے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بعض مفسّرین نے اس کی اہمیت یوں بیان کی ہے: اللہ کی رسّی سے متمسک ہونا پوری امت مسلمہ کو ایک جان کی مانند قرار دیتا ہے اور خیر کی جانب دعوت دینا اس اصل کی خوراک ہے اور امر بہ معروف اور نہی از مکنر اس کی محافظ اور نگہبان ہے ( رشید رضا، تفسیر المنار، ج۴، ص۴۸) بعض دیگر مفسّرین کی نگاہ میں امر بہ معروف اور نہی از منکر امت مسلمہ کی حفاظت کے لئے ایک اجتماعی حجاب ہے اور اجتماعی اتحاد عمومی نظارت کے بغیر ناممکن ہے (مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۳، ص۳۵)۔


اس کے علاوہ ان دو الہی فریضوں کی اہمیت کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہو گا کہ دین میں اختلاف، پراکندگی اور فرقہ پرستی کی وجہ یا تو دین کو غلط سمجھنے میں پوشیدہ ہے اور یا نفسانی خواہشات ہیں اور امر بہ معروف و نہی از منکر اجتماعی نظارت کی شکل میں اس طرح کے انحرافات کی ترویج میں رکاوٹ بن سکتا ہے جیسا کہ قرآن تفرقہ کا سبب جہالت قرار نہیں دیتا بلکہ ذکر ہوتا ہے کہ دلیلوں کے بعد وہ پراکندگی کا شکار ہوئے ہیں۔ (مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۲۰، ص۳۸۱) حقیقت میں امر بہ معروف اور نہی از منکر اسلامی اصل ہے جس کے بارے میں قرآن میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے۔ اس سلسلہ میں رجوع کریں: آل عمران/ ۱۱۴،۱۱۰، ۱۰۴، اعراف/ ۱۹۹،۱۵۷، لقمان/۱۷، توبہ/۷۱، ۱۱۲، حجّ/۴۱۔


۵۔  برادری اور اخلاقی حقوق کی رعائت: قرآن کریم مؤمنین کو ایک دوسرے کی جان قرار دیا ہے اور ان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے عیوب کو چھپا کر رکھیں: وَ لَا تَلْمِزُواْ أَنفُسَكمُ‏ْ وَ لَا تَنَابَزُواْ بِالْأَلْقَابِ  بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْايمَانِ  وَ مَن لَّمْ يَتُبْ فَأُوْلَئكَ هُمُ الظَّالِمُون (حجرات/۱۱) ترجمہ: آپس میں ایک دوسرے کو طعنے بھی نہ دینا اور برے برے القاب سے یاد بھی نہ کرنا کہ ایمان کے بعد بدکاری کا نام ہی بہت برا ہے اور جو شخص بھی توبہ نہ کرے تو سمجھو کہ یہی لوگ درحقیقت ظالمین ہیں۔ اسی طرح قرآن نے مؤمن کی غیبت اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے۔


اسلامی معاشرہ کی ثقافتی فضا میں تقابل و توہین جیسی بیماریاں نہیں ہونا چاہئے خداوندمتعال بعض آیات میں ہم سے یہ نہیں چاہتا کہ دشمن کو شکست  دیں بلکہ یہ چاہتا ہے کہ دشمنی و عداوت کو ختم کیا جائے اور یہ چیز اچھائی انجام دینے اور برائی کا نیکی کے ذریعہ جواب دینے سے حاصل ہوتی ہے۔ اسلامی اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اخوت ایجاد کرنے سے دوسرے مسلمانوں کی توہین، ان سے دشمنی اور دیگر غیر اخلاقی صفات سے پرہیز کریں بلکہ ہم اپنے اوپر انہیں حرام قرار دیں لہذا جو شخص بھی اسلام کے بنیادی اصول کا پابند ہے وہ مسلمان ہے اور اس سے دوستی اور محبت واجب ہونے کے علاوہ اس کے ساتھ برائی حرام ہے۔ اس بنا کینہ و عداوت سے پرہیز کرنا اور دوستی و محبت ایجاد کرنا مسلمانوں کے درمیان ایک دینی اور ضروری اصل ہے۔


۶۔ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ اچھی رفتار: مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا ایک سبب مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے حقوق کی ادائگی ہے جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: وَ لَوْ شَاءَ رَبُّكَ لاَمَنَ مَن فىِ الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَ فَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتىَ‏ يَكُونُواْ مُؤْمِنِين (یونس/۹۹) ترجمہ: اور اگر خدا چاہتا تو روئے زمین پر رہنے والے سب ایمان لے آتے تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے کہ سب مؤمن بن جائیں۔


اسلام نے مختلف طریقوں سے انسانوں کو دوسرے ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ گفتگو و آشنائی کی دعوت دی ہے اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین سے منع کیا ہے اور اس اصل عقلی کا پابند قرار دیا ہے کہ جو چیز اپنے لئے پسند نہیں کرتے اسے دوسروں کے لئے بھی پسند نہ کرو۔ لہذا اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں، دانشوروں اور علماء کی توہین نہ ہو تو دوسرے بھی یہی توقع رکھتے ہیں، حتی قرآن کریم اس اصل کو بت پرستوں اور خدا کی وحدانیت کا اقرار نہ کرنے والوں کے سلسلہ میں بھی جائز قرار نہیں دیتا: وَ لَا تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّواْ اللَّهَ عَدْوَا بِغَيرِ عِلْمٍ (انعام/۱۰۸) ترجمہ: اور خبردار تم لوگ انہیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے۔


۷۔ مسلمانوں و مؤمنوں کے درمیان اصلاح: بہت سی آیات ہیں جن میں لوگوں کے درمیان صلح و دوستی کی تاکید کی گئی ہے منجملہ: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُواْ بَينْ‏َ أَخَوَيْكمُ‏ْ وَ اتَّقُواْ اللَّهَ لَعَلَّكمُ‏ْ تُرْحَمُون (حجرات/۱۰) ترجمہ: مؤمنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے۔ قرآن انہیں ایک دوسرے کا بھائی قرار دیتا ہے یہاں تک کہ قرآن کی نگاہ میں دشمنوں کے ساتھ بھی محبت و مؤدت کا امکان پایا جاتا ہے: عَسىَ اللَّهُ أَن يجَعَلَ بَيْنَكمُ‏ْ وَ بَينْ‏َ الَّذِينَ عَادَيْتُم مِّنهْم مَّوَدَّةً وَ اللَّهُ قَدِيرٌ  وَ اللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيم (ممتحنہ/۷) ترجمہ: قریب ہے کہ خدا تمہارے اور جن سے تم نے دشمنی کی ہے ان کے درمیان دوستی قرار دے دے کہ وہ صاحبِ قدرت ہے اور بہت بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔ مذکورہ نکات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر موجودہ دور کے مسلمان صرف چند قرآنی آیات پر عمل پیرا ہوں تو آپسی اتحاد پیدا ہو سکتا ہے۔