پیغمبر اکرمؐ کی اجتماعی سیرت میں برجستہ اصول

پیغمبر اکرمؐ لوگوں کے ساتھ برتاؤ میں جن اصولوں کے پابند تھے ایک اعتبار سے ان کی تین قسمیں ہیں: ۱۔ وہ اصول جن کی آپؐ نے کافر و مسلمان دونوں کی نسبت رعایت کی۔ ۲۔ وہ اصول جو صرف مؤمنوں کے ساتھ برتاؤ میں آپؐ نے مد نظر قرار دئے۔ ۳۔ وہ اصول جو کفّار حربی اور فاسقوں کے ساتھ برتاؤ میں مد نظر قرار دئے۔

ID: 61625 | Date: 2019/11/15

پیغمبر اکرمؐ کی اجتماعی سیرت میں برجستہ اصول


پیغمبر اکرمؐ لوگوں کے ساتھ برتاؤ میں جن اصولوں کے پابند تھے ایک اعتبار سے ان کی تین قسمیں ہیں: ۱۔ وہ اصول جن کی آپؐ نے کافر و مسلمان دونوں کی نسبت رعایت کی۔ ۲۔ وہ اصول جو صرف مؤمنوں کے ساتھ برتاؤ میں آپؐ نے مد نظر قرار دئے۔ ۳۔ وہ اصول جو کفّار حربی اور فاسقوں کے ساتھ برتاؤ میں مد نظر قرار دئے۔


پیغمبر اکرمؐ ایسے معاشرہ میں رسالت پر مبعوث ہوئے جو اجتماعی اعتبار سے بہت سی مشکلات میں گرفتار تھا، دشمنی و عداوت، رقابت اور دائمی کشمکش اس میں نمایاں تھیں، پیغمبر اکرمؐ نے اسلامی تعلیمات کے سایہ میں کچھ ہی مدت میں جہالت و تباہی میں گرفتار معاشرہ میں ایسی تبدیلی لائی جس کے نتیجہ میں اجتماعی مفاسد، ہرج و مرج، نا امنی اور قومی لڑائی کے بجائے اتحاد، امنیت، برادری، محبت اور ایثار کا بول بولا ہونے لگا۔ پیغمبر اکرمؐ نے مفسّر قرآن کے عنوان سے اسلام کی اقدار کو عملی جامہ پہنایا۔ عصرِ حاضر میں بھی پیغمبر اکرمؐ کی سیرت تمام مسلمانوں کے لئے نمونۂ عمل بن سکتی ہے اس مقام پر ہم آپؐ کی اجتماعی سیرت کے کچھ برجستہ اصول کی جانب اشارہ کر رہے ہیں:


۱۔ صداقت و سچائی: پیغمبر اکرمؐ لوگوں کے ساتھ مہربانی و صداقت سے پیش آتے تھے آپؐ خود بھی خود نمائی اور تکلّف سے دوری اختیار کرتے تھے اور دوسروں کو بھی یہی حکم دیتے تھے۔ کیونکہ معاشرہ میں اگر صداقت نہ ہو تو اس معاشرہ کی بنیادیں لڑ کھڑا جاتی ہیں اور اجتماعی نظام اپنے اصلی راستہ سے خارج ہو جاتا ہے آپؐ نے اعلان کیا: قُلْ مَا أَسْئلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْر وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ (ص/۸۶)۔  ترجمہ: اور پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنی تبلیغ کا کوئی اجر نہیں چاہتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والا غلط بیان ہوں۔


علامہ طباطبائی فرماتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ نے جملۂ " مَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ " سے اپنے بارے میں تمام بناوٹی چیزوں اور خودپسندی کی نفی ہے۔ (طباطبائي، الميزان، ج 17، ص 225)۔ پیغمبر اکرمؐ اگر کسی کو نہیں چاہتے تھے تو اس سے اظہار ارادت بھی نہیں کرتے تھے اور اپنے مخالفین کے ساتھ صداقت سے پیش آتے تھے۔ ابوذر غفاری سے منقول ہے کہ ایک دن سلمان فارسی نے پیغمبر اکرمؐ کے پاؤں کا بوسہ لینے کا ارادہ کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ میں خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں اور میرے ساتھ ایسا سلوک نہ کرو جیسے عجمی اپنے بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔


۲۔ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کا احترام: پیغمبر اکرمؐ صرف اسلام کو دین حق اور سیدھا راستہ سمجھتے تھے لیکن اسلام کی حقانیت اور عالمی دین ہونے کے باوجود دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کا بھی احترام کرتے۔ جب آپؐ مدینہ میں داخل ہوئے تو وہاں بہت سے یہودی اور بت پرست بھی زندگی بسر کر رہے تھے لہذا کسی احتمالی واقعہ رونما ہونے کے پیش نظر آپؐ نے ایک اہم قرار داد لکھی جسے تاریخ اسلام میں یاد کیا جاتا ہے۔ آپؐ نے مسلمانوں کے ساتھ ہم پیمان گروہوں کے حقوق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اَلا مَن ظَلَمَ مُعاهِداً اَو اِنتَقَصَهُ اَو كلَّفَهُ فَوقَ طاقَتِهِ اَو أخذ مِنهُ شَيئاً بِغَيرِ طيبِ نَفسِهِ فَاَنَا حَجيجُهُ يومَ القيامَةِ" آگاہ ہو جاؤ کہ جو شخص مسلمانوں کے کسی ہم پیمان پر ظلم کرے یا اسے نقصان پہنچائے یا اسے ایسے کام کو انجام دینے پر مجبور کرے جو اس کی طاقت سے باہر ہے یا اس کی رضایت کے بغیر کوئی چیز لے لے تو روز قیامت میں اس سے بری ہوں۔


۳۔ عدالت طلبی: پیغمبر اکرمؐ اجتماعی تعلقات برقرار کرنے میں جس اصل کے پابند تھے اور اسے دوست و دشمن مسلمان و کافر سب کے حق میں رعایت کیا وہ عدالت اور حق مداری تھی بنیادی طور پر پیغمبر اکرمؐ کا ایک اہم مقصد معاشرہ کے تمام پہلوؤں میں عدالت کا نفاذ تھا۔ پیغمبر اکرمؐ نے عدالت طلبی اور نفاذ عدالت کے لئے نہایت اہم مقدمات انجام دئے منجملہ: ۱۔ تمام قسم کے ظلم و طبقہ بندی و اشرافیت سے مقابلہ کیا اور اس طرح کی صفات کی شدید مخالفت کی اور انسانوں میں برابری و برادری کے نعرہ سے تمام قسم کے ظلم و ستم کا خاتمہ کیا۔ آپؐ نے جاہلی غیر عادلانہ معیاروں کی مخالفت کرتے ہوئے انسانوں کی برتری کا ایک اور معیار قرار دیا جسے تقویٰ کہتے ہیں۔


پیغمبر اکرمؐ نے فتح مکہ کے دن اعلان کیا: ايّها الناس! انّ اللّه اذهب عنكم نخوة الجاهلية و تفاخرها بابائها، انّكم منِ آدم(عليه السلام)و آدم من طين الا انّ خير عباداللّه عبد اتقاه" ( كليني، الكافي، ج 8، ص 231) اے لوگو! خداوندمتعال نے خودپسندی اور جاہلیت کی طرح اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنے کو مٹا دیا، آگاہ ہوجاؤ کہ تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ کو خاک سے پیدا کیا گیا لہذا خدا کے بندوں میں سب سے برتر وہ ہے جو تقویٰ اختیار کرے۔ ۲۔ نفاذ عدالت کے لئے تلاش: پیغمبر اکرمؐ نے اجتماعی عدالت کے نفاذ میں بہت سی کاوشیں انجام دیں جن میں نمایاں اسلامی حکومت کی تشکیل تھی اور آپؐ کی نظر میں حکومت تشکیل دینے کا فلسفہ معاشرہ میں اسلامی تعلیمات کا اجرا اور نفاذ عدالت تھا۔ اسی وجہ سے آپؐ ہمیشہ اپنی حکومت کے عہدیداروں کو بھی نفاذ عدالت کی بہت زیادہ تاکید کیا کرتے۔ آپؐ نے حتی بعثت سے پہلے بھی معاشرہ میں عدالت کے نفاذ اور ظلم و ستم کے مقابلہ کے بارے میں مکہ کے کچھ نوجوانوں کے ساتھ پیمان باندھا جسے "حلف الفضول" کہا جاتا ہے۔


۴۔ عہد و پیمان کی رعایت: پیغمبر اکرمؐ اجتماعی عدالت کے بارے میں اگر کسی شخص یا کسی گروہ کے ساتھ پیمان باندھتے تو اس پر پابند رہتے اور اسے ایک شرعی ذمہ داری سمجھتے تھے جس کا خدا نے حکم دیا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام آپؐ کی توصیف میں فرماتے ہیں: كان اجود الناسِ كفّاً و اجرء النّاس صدراً و اصدق الناسِ لهجةً و اوفاهم ذمةً (مجلسي، بحارالانوار، ج 16، ص 231) پیغمبر اکرمؐ سب سے زیادہ سخی، با جرأت، صادق اور لوگوں کے ساتھ باندھے گئے عہد و پیمان کے وفادار تھے۔ مؤرخین نے متعدد کتابوں میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے ساتھ آپؐ کے عہد و پیمان کو نقل کیا ہے۔


۵۔ ذاتی حقوق میں عفو و بخشش: ایک اور اصل جس کے آپؐ پابند تھے وہ ذاتی حقوق میں عفو و بخشش تھی۔ آپؐ ایسے مقامات پر اپنے ذاتی حقوق سے صرف نظر کرتے ہوئے بخش دیتے تھے جو مجرم کی بیداری، تربیت اور ہدایت کا سبب بنتے تھے۔ عائشہ کہتی ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے کبھی بھی اپنے اوپر ظلم کی خاطر کسی سے انتقام نہیں لیا لیکن اگر حدود الہی کی رعایت نہ کی جاتی تو اس وقت خدا کی خوشنودی کی خاطر انتقام لیتے تھے (ابن سعد، طبقات الكبري، تحقيق محمّد عبدالقادر عطاء، بيروت، ج 1، ص 367) پیغمبر اکرمؐ جب اقتدار کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے تو آپؐ نے ان تمام افراد کو معاف کر دیا جنہوں نے آپؐ پر ظلم کیا تھا اور کسی سے انتقام نہیں لیا نیز ابوسفیان کے سامنے اعلان کیا کہ "الیوم یوم المرحمہ" (مجلسي، بحار الانوار، ج 21، ص 9)


۶۔ خیر خواہی: پیغمبر اکرمؐ خدائی رحمت کے مظہر تھے اور تمام انسانوں کی نسبت خیر خواہی چاہتے تھے، خداوندمتعال آپؐ کی توصیف میں فرماتا ہے: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (توبہ/۱۲۸) ترجمہ: یقینا تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ہے ۔


۷۔ مؤمنین سے محبت: پیغمبر اکرمؐ مؤمنین کی نسبت بہت مہربان تھے اور ان سے بہت زیادہ محبت کیا کرتے تھے ان کے عیوب سے چشم پوشی کرتے ہوئے ان کی مشکلات کو دور کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ آپؐ کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنفُسِكُمْ ... بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيم( توبہ/۱۲۸) ترجمہ:  یقینا تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ہے۔


نیز ارشاد ہوتا ہے: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ( فتح/۲۹) ترجمہ: محمد(ص) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحمدل ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: رسول اکرمؐ اپنے اصحاب کے درمیان نگاہ کو بھی تقسیم کیا کرتے یعنی ایک دوسرے کو برابر دیکھتے اور ہرگز اپنے اصحاب کے سامنے اپنے پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے۔ (شيخ حرّ عاملي، وسائل الشيعه ، ج12، ص۱۴۳)


سیرت پیغمبر اکرمؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ مؤمنین کے ہمنشین تھے بالخصوص محتاجوں کے ساتھ امیروں و ثروتمندوں کی نسبت زیادہ اٹھتے بیٹھتے تھے اور فاسقوں و مشرکوں سے شدت کے ساتھ دوری اختیار کرتے تھے۔ یہ چیز امیروں و ثروتمندوں کو بری لگتی تھی اس وجہ سے انہوں نے آپؐ سے مطالبہ کیا کہ آپؐ انہیں اپنے ارد گرد سے دور کر دیں تب ہم آپؐ پر ایمان لائیں گے لیکن خداوندمتعال نے اپنے پیغمبرؐ کو حکم دیا کہ ہرگز ایسا کام انجام نہ دینا اور مؤمنین کو اپنے سے دور مت کرنا: وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِي يُرِيدُونَ وَجْهَهُ (انعام/۵۲) ترجمہ: ور خبردار جو لوگ صبح و شام اپنے خدا کو پکارتے ہیں اور خدا ہی کو مقصود بنائے ہوئے ہیں انہیں اپنی بزم سے الگ نہ کیجئے گا۔


وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِي يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطاً (کہف/۲۸) ترجمہ: اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر پر آمادہ کرو جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلب گار ہیں اور خبردار تمہاری نگاہیں ان کی طرف سے پھر نہ جائیں کہ زندگانی دنیا کی زینت کے طلب گار بن جاؤ اور ہرگز اس کی اطاعت نہ کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے محروم کردیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کا پیروکار ہے اور اس کا کام سراسر زیادتی کرنا ہے۔


شبِ معراج خداوندمتعال نے پیغمبر اکرمؐ سے فرمایا: اے احمد! خدا کو دوست رکھنا چاہتے ہو تو فقیروں و محتاجوں کو دوست رکھو آپؐ نے پوچھا وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: جو معمولی چیز پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہیں اور بھوک میں صبر سے کام لیتے ہیں اور زندگی پر شکر گزار ہیں اور جو چیز ان کے ہاتھوں سے چلی جائے اس پر پریشان نہیں ہوتے اور جو ان کے ہاتھ لگے اس سے زیادہ خوشحالی کا اظہار نہیں کرتے۔ (مجلسي، بحارالانوار، ج 77، ص 33)


۸۔ فاسقوں اور کافروں کا مقابلہ: پیغمبر اکرمؐ  کو جب معلوم ہوتا کہ انسانوں کے حقوق کی پائمالی ہو رہی ہے اور خدائی حدود کو توڑا جا رہا ہے تو وہاں پر آپؐ سختی سے پیش آتے تھے۔ آپؐ کو کافروں و ملحدوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا حکم دیا گیا تھا جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: يَا أَيُّهَا النَّبِي جَاهِدْ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ (توبہ/۷۳) ترجمہ: پیغمبر !کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے۔


وَ إِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ  (توبہ/۱۲) ترجمہ: اور اگر یہ عہد کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور دین میں طعنہ زنی کریں تو کفر کے سربراہوں سے کھل کر جہاد کرو کہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں ہے شاید یہ اسی طرح اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔


مذکورہ اصول پیغمبر اکرمؐ کی زندگی کے برجستہ اصول ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر مسلمان  آپسی نفرتوں کے بجائے اتحاد پر مبنی ایک مثالی معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔


منبع: marifat.nashriyat.ir