حضرت امام علی (ع) کی حکومت میں مدارا اور شدت پسندی سے اجتناب

حضرت امام علی (ع) کی حکومت میں انسان، انسان ہونے کی وجہ سے انسانی کرامت کے حامل اور مناسب سلوک کئے جانے کے لائق ہیں۔

ID: 60616 | Date: 2019/09/13

حضرت امام علی (ع) کی حکومت میں مدارا اور شدت پسندی سے اجتناب


تحریر: ابوطالب ربیع نیا


حضرت امام علی (ع) کی حکومت میں انسان، انسان ہونے کی وجہ سے انسانی کرامت کے حامل اور مناسب سلوک کئے جانے کے لائق ہیں۔ آپ (ع) کی علوی حکومت میں خواہ کوئی فرد ہو یا کسی دین اور آئین کے ماننے والا ہو، کس رحجان و خیالات اور سلیقہ کا مالک ہو، جو بھی ملک اور مذہب رکھتا ہو، وہ صرف انسان ہونے کے ناطے حرمت اور ارزش رکھتا ہے۔


حضرت امام علی (ع) ، مالک اشتر کو خطاب کرکے اپنے حکومتی منشور میں فرماتے ہیں:


تمہارے دل پر ایک غلاف ہو جس کا تار و پود لوگوں کے ساتھ محبت و مہربانی اور ان کے ساتھ ہمدردی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے لئے خون آشام ایک درندہ رہو کہ ان کے کھانے کو غنیمت جانو، کیونکہ سارے لوگ دو گروہ میں ہی ہیں: یا وہ دین کے لحاظ سے تمہارے بھائی ہیں یا پھر خلقت میں تمہارے ہی جیسے ہیں۔


حضرت امیر المومنین (ع) یہاں پر شہریوں کے اساسی حقوق کا اعلان کرتے ہیں کہ وہی شدت پسندی سے دوری کی تاکید ہے۔ امام (ع) اس خطاب میں یاددہانی کرارہے ہیں کہ جو لوگ ان (مالک اشتر) کی حکومت اور فرمانروائی کے دائرہ میں آتے ہیں، مجموعی طور پر دو گروہ کے اندر ہی ہیں ۔ ان کے حق میں شدت پسندی، اور ان کے شہری حقوق کو نظر انداز کرنا روا نہیں ہے۔


امام علی (ع) کا مالک اشتر کو یہ فرمان اس بات کی عکاسی کررہا ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ محبت اور مہربانی سے پیش آنے اور لوگوں کے حقوق کا پاس و لحاظ کرنے اور حقوق بشر کی اعلی حد تک رعایت کرنے کی تاکید ہے۔ لیکن اس وقت اور اس عصر میں جو غاصب اور سامراجی حکومتیں حقوق بشر کا دم بھرتی اور اسے اپنے مخالفین کو کچلنے کا بہانہ بناتی ہیں اور اسلام پر حقوق بشر کی پامالی کا الزام لگاتی ہیں، وہ بے بنیاد هے۔ اگر غور و خوض کیا جائے اور دقت سے کام لیا جائے تو واضح طور پر یہی دکھائی دے گا کہ یہ جھوٹے حقوق بشر کے دعویدار انسانوں کے ابتدائی اور واضح ترین حق، "حق حیات" کو بھی نظر انداز کرتے اور پامال کرتے ہیں اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے نہتھے بچوں اور عورتوں کو خاک و خون میں غلطاں کرتے ہیں اور حقوق بشر کے وفاع کا ڈھول پیٹتے ہیں اور دنیا کو دھوکہ دیتے ہیں۔


حضرت امام خمینی (رح) جو جمہوری اسلامی ایران کے بانی اور علوی مکتب کے تربیت یافتہ اور تعلیم یافتہ ہیں، اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:


غیر مادی (الہی) مکاتب میں نرمی اور مدارا ہے۔ خوش اخلاقی اور حسن سلوک ہے، دعوت ہے اور جہاں تک ممکن ہے لوگوں کو دعوت کے ذریعہ حق کی جانب پلٹاتے ہیں۔ آپ کا نظریہ ہے کہ رسولخدا (ص) کفار و مشرکین کے ساتھ نرم اور مہربان تھے۔ رسولخدا (ص) جس طرح مومنین کے لئے نرم دل اور مہربان تھے کفار کے لئے بھی ہمدرد اور مہربان تھے .... جس طرح آپ مومنین کے ساتھ صلح و آشتی رکھتے تھے اسی طرح دوسروں کے ساتھ بھی رکھتے تھے۔


امام خمینی (رح) کی یہ باتیں اس بات کی عکاسی کررہی ہیں کہ دین اسلام شدت پسندی، ظلم و زیادتی سے خالی دین ہے۔ اس دین میں ہمدردی، مہربانی، شفقت و محبت اور نرمی و مدارا ہے۔ اس دین کے پیغمبر رحمة للعالمین سارے جہان کے لئے رحمت ہیں۔ انسان کو صاحب کرامت جانتے ہیں اور اس کے ساتھ کریمانہ سلوک کرتے ہیں اور اس کی خطا و لغزش کے مقابلہ میں عفو و درگذر دکھاتے ہیں نہ سختی اور شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔