امام علی علیہ السلام کی حکومت کا طریقہ کار

نھج البلاغہ خطبات، خطوظ اور کلمات قصار پر مشتمل ایسا مجموعہ ہے جس میں حکومت کرنے کا طرہقہ اور ایک معاشرے و انسان کی تربیت کا طریقہ بیان کیا گیا ہے تمام حکومتوں میں اور خاص کر اسلامی حکومتوں میں حکام کی زددگی بسر کرنے کا طریقہ عوام کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے حکام کی ذاتی زندگی حکومت اور دینی عقائد پر عام آدمی کے اعتقاد میں اہم کردار کرتی ہے لہذا امیر المومنین علیھم السلام نے ہمیشہ سماج کے سب سے غریب طبقہ کی طرح اپنی زندگی گزاری ہے۔

ID: 59096 | Date: 2019/05/27

امام علی علیہ السلام کی حکومت کا طریقہ کار


نھج البلاغہ خطبات، خطوظ اور کلمات قصار پر مشتمل ایسا مجموعہ ہے جس میں حکومت کرنے کا طرہقہ اور ایک معاشرے و انسان کی تربیت کا طریقہ بیان کیا گیا ہے تمام حکومتوں میں اور خاص کر اسلامی حکومتوں میں حکام کی زددگی بسر کرنے کا طریقہ عوام کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے حکام کی ذاتی زندگی حکومت اور دینی عقائد پر عام آدمی کے اعتقاد میں اہم کردار کرتی ہے لہذا امیر المومنین علیھم السلام نے ہمیشہ سماج کے سب سے غریب طبقہ کی طرح اپنی زندگی گزاری ہے۔


امام خمینی پورٹل کی رپورٹ کے مطابق امیرالمومنین کی حکومت دنیا کی سب سے بہترین حکومت  تھی جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اسلم کے بعد عدل اور انصاف برقرار کیا گیا تھا حضرت علی علیہ السلام نے ہمیشہ سماج کے سب سے غریب طبقے کی طرح اپنی زندگی بسر کی ہے اور ہر قسم کی زینت اور اشرافیگری سے پرہیز کی ہے اور انہیں امید تھی کہ ان کی حکومت کے دوسرے افراد بھی اسی طرح کی زندگی بسر کریں۔


بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف کے نام امیر المومنین علیھم السلام کا خط حکومتی حکام کی تربیت کا بہترین نمونہ ہے جس میں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایک حاکم کو کس قدر اپنے وزراء کی تربیت کا خیال رکھنا چاہیے۔


جب امیر المومنین علیھم السلام کو یہ خبر ملی کہ ان کے منصوب کئے ہوے گورنر نے بصرہ میں کچھ امیروں کی دعوت میں شرکت کی ہے جس میں مختلف قسم کھانے تیار کئے گئے تھے اور مختلف قسم کے برتنوں میں کھانوں کو لگایا تھا جبکہ اس دعوت میں ایک بھی غریب شریک نہیں تھا تو حضرت نے  یہ خبر سنتے ہی قلم اٹھائی اور حمد باری تعالی گورنر کو لکھا : أَمَّا بَعْدُ، یا ابْنَ حُنَیفٍ فَقَدْ بَلَغَنِی أَنَّ رَجُلًا مِنْ فِتْیةِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ دَعَاکَ إِلَی مَأْدُبَةٍ فَأَسْرَعْتَ إِلَیهَا تُسْتَطَابُ لَکَ الْأَلْوَانُ وَ تُنْقَلُ إِلَیکَ الْجِفَانُ وَ مَا ظَنَنْتُ أَنَّکَ تُجِیبُ إِلَی طَعَامِ قَوْمٍ عَائِلُهُمْ مَجْفُوٌّ وَ غَنِیهُمْ مَدْعُوٌّ۔


اے حنیف کے بیٹے مجھے خبر ملی ہیکہ بصرہ کے ایک امیر شخص نے تمہیں دعوت دی اور تم اس کی دعوت قبول کی اور ایک ایسے دسترخوان پر بیٹھ گئے جس پر مختلف قسم برتنوں میں مختلف قسم کھانے لگے ہوے تھے اور دعوت میں ایک بھی غریب مدعو نہیں تھا مجھے امید نہیں تھی کہ تم ایسی دعوت کو قبول کرو گے جس میں غریبوں کو چھوڑ کر صرف امیروں کو دعوت دی گئی ہو۔


قابل ذکر بات یہ ہیکہ عثمان بن حنیف حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے جنہوں نے مختلف جنگوں میں شرکت بھی کی تھی وہ ایک بہادر، مفکر اور سچے مسلمان تھے اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام نے انہیں بصرہ کا گورنر منصوب کیا تھا لہذا حضرت اسی وجہ سے فرماتے ہیں تمہارے تقوی اور زہد کو دیکھتے ہوے مجھے اس بات کی امید نہیں تھی تم علی کی نمایندگی میں اس طرح کی دعوت قبول کرو گے اور ایسے دسترخوان پر بیٹھو گے جس میں غریبوں کا خیال نہ رکھا گیا ہو۔


واضح رہے کہ نھج البلاغہ خطبات، خطوظ اور کلمات قصار پر مشتمل ایسا مجموعہ ہے جس میں حکومت کرنے کا طرہقہ اور ایک معاشرے و انسان کی تربیت کا طریقہ بیان کیا گیا ہے تمام حکومتوں میں اور خاص کر اسلامی حکومتوں میں حکام کی زددگی بسر کرنے کا طریقہ عوام کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے حکام کی ذاتی زندگی حکومت اور دینی عقائد پر عام آدمی کے اعتقاد میں اہم کردار کرتی ہے لہذا امیر المومنین علیھم السلام نے ہمیشہ سماج کے سب سے غریب طبقہ کی طرح اپنی زندگی گزاری ہے۔