امام حسین (ع) کے قیام کا مقصد اسلام کو خطرے سے بچانا

حضرت سیدالشہداء (ع) نے اپنے چند اصحاب اور چند رشتہ داروں اور مخدرات کے ساتھ قیام کیا تھا، چونکہ یہ قیام للہ تھا

ID: 58189 | Date: 2019/03/18

حضرت سید الشہداء  (ع) نے اپنے چند اصحاب اور چند رشتہ داروں  اور مخدرات کے ساتھ قیام کیا تھا، چونکہ یہ قیام للہ تھا۔ لہذا اس نے اُس خبیث کی سلطنت کی بنیادوں  کو ختم کر ڈالا۔ امام  (ع) خود تو شہید ہوگئے تھے لیکن اس سلطنت کی بنیاد کو توڑ گئے تھے۔ وہ سلطنت کہ جس نے اسلام کو طاغوتی سلطنت کی شکل میں  تبدیل کردیا تھا۔ اسلام کو معاویہ اور یزید سے جو خطرہ تھا وہ یہ نہیں  تھا کہ اُنہوں  نے خلافت غصب کر لی تھی، یہ تو بہت معمولی خطرہ تھا، ان کا خطرہ اسلام کیلئے یہ تھا کہ یہ اسلام کو ایک ایسی سلطنت میں  تبدیل کرنا چاہتے تھے کہ جس میں  معنویت (اسلام) طاغوتیت میں  تبدیل ہوجاتی، یہ لوگ خلیفہ رسول ؐ کے نام پر اسلام کو طاغوتی حکومت میں  تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ جس قدر نقصان ان دو افراد نے اسلام کو پہنچایا ہے یا پہنچانا چاہتے تھے اس قدر نقصان پہلے والوں  نہیں  پہنچایا۔ یہ اسلام کی اصل اور بنیاد ہی کو اُلٹ دینا چاہتے تھے۔ ان کی مجالس اور محافل میں  سلطنت تھی، شراب تھی، قمار تھا۔ رسول اللہ کا خلیفہ ،محفل شراب میں ، قمار کی محفل میں ؟


اس کے بعد یہی خلیفہ رسول جاتا ہے نماز جماعت بھی پڑھاتا ہے! یہ اسلام کیلئے سب سے بڑا خطرہ تھا، اسی خطرے کو سید الشہداء  (ع) نے بر طرف کیا ہے۔ یہ مسئلہ ،فقط خلافت کے غصب کا مسئلہ نہیں  تھا۔ سید الشہداء  (ع) کا قیام، طاغوتی سلطنت کے خلاف تھا، وہ طاغوتی سلطنت کہ جس میں  اسلام کو رنگا جارہا تھا، اگر یہ لوگ اس کام میں  کامیاب ہوجاتے تو اسلام ایک اور ہی چیز بن جاتا، اسلام، دو ہزار پانچ سو سالہ سلطنت جیسی حکومت میں  تبدیل ہوجاتا۔ وہ اسلام کہ جو سلطنتی حکومت اور اس جیسی دوسری حکومتوں  کو ایک الٰہی حکومت میں  تبدیل کرنے کیلئے آیا تھا، جو طاغوت کو توڑکر اُس کی جگہ اللہ کو لانے کیلئے آیا تھا۔ لیکن یہ چاہتے تھے کہ اللہ کو ہٹا کر اس کی جگہ طاغوت کو بٹھا دیں ، وہی جاہلیت سابقہ کو زندہ کر دیں ، سید الشہداء  (ع) کاقتل ہوجانا، اُن کی شکست نہیں  تھی، چونکہ اُن کا قیام اللہ کیلئے تھا۔ اللہ کیلئے قیام، شکست پذیر نہیں  ہوتا۔


(صحیفہ امام، ج ۸، ص ۹)


ہمیں  اسلامی طرز حکومت اور مسلمانوں  کے ساتھ اسلامی حکام کے رویئے کو دنیا تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ان استعمار زدہ حکومتوں  کے بجائے کہ جن کی بنیاد ہی ظلم وستم اور لوٹ مار پر ہے، عدل وانصاف پر مبنی ایک حکومت کے قیام کا راستہ ہموار ہوسکے۔ اگر ہر طبقے کے جوان (اُس) اسلامی طرز حکومت کو سمجھ لیں  کہ جو افسوس کے ساتھ پیغمبر اسلام  (ص) کے زمانے میں  چند سال تک اور امیر المومنین  (ع) کے انتہائی قلیل دور حکومت کے سوا برقرار نہ رہ سکی، تو ظالمانہ استعماری حکومتوں  اور گمراہ کیمونسٹ مکاتب فکر وغیرہ کی بنیادیں  خود بخود ختم ہوجائیں ۔


(صحیفہ امام، ج ۲، ص ۳۴۶)