اے کاش امام زندہ ہوتے تو ہم ان کی جدید آراء و افکار سے مستفیذ ہوتے: آیت اللہ العظمی صانعی

اے کاش امام (رح) زندہ ہوتے تو ہم ان کی جدید آراء و افکار سے نئے انداز میں مستفیذ ہوتے.

ID: 57140 | Date: 2019/01/05

اے کاش امام زندہ ہوتے تو ہم ان کی جدید آراء و افکار سے مستفیذ ہوتے: آیت اللہ العظمی صانعی


آیت اللہ العظمی صانعی: اے کاش امام (رح) زندہ ہوتے تو ہم ان کی جدید آراء و افکار سے نئے انداز میں مستفیذ ہوتے۔


فقہ پژوھی موسسہ فقہ الثقلین کی جانب سے "فقہ میں حقوقِ خواتین کے چیلنجیز" کے موضوع پر منعقد کی جانے والی کانفرنسوں کی دوسری کانفرنس  قم میں منعقد کی گئی جس میں آیات عظام جناب صانعی، بیات، زنجانی، موسوی اور بجنوردی کے علاوہ حوزہ علمیہ قم اور یونیورسٹی کے کچھ اساتید اور حقوق بشر و خواتین کے سلسلہ میں بعض سرگرم افراد بھی تشریف فرما تھے۔


جماران خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق: فقہ پژوھی موسسہ فقہ الثقلین کی جانب سے "فقہ میں حقوقِ خواتین کے چیلنجیز" کے موضوع پر منعقد کی جانے والی کانفرنسوں کی دوسری کانفرنس جمعرات ۱۳ دی کو قم میں منعقد کی گئی جس میں آیات عظام جناب صانعی، بیات، زنجانی، موسوی اور بجنوردی کے علاوہ حوزہ علمیہ قم اور یونیورسٹی کے کچھ اساتید اور حقوق بشر و خواتین کے سلسلہ میں بعض سرگرم افراد بھی تشریف فرما تھے۔


آیت اللہ العظمی صانعی نے اس کانفرنس میں اپنے خطاب کے درمیان کہا: قم میں اسلامی فقہ میں خواتین کے حقوق نامی منعقد کی گئی آج کی یہ  کانفرنس میرے لئے باعث مسرت بھی ہے اور باعث افسوس بھی۔ باعث مسرت اس لئے ہے کہ عقلانی فکر اور اسلام کا فطرت کے مطابق ہونے کے پیغامات حوزہ علمیہ اور یونورسٹی میں اجاگر ہو رہے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ امام خمینی(رح) کے دور میں دشمنوں نے موقع نہ دیا کہ وہ جلیل القدر، کم نظیر یا بے نظیر شخصیت اسلامی حقائق کو واضح طور پر بیان کر پائے لہذا یہ کانفرنسیں ان کی نگرانی میں منعقد ہو رہی ہیں۔


انہوں نے بیان کیا کہ اے کاش امام زندہ ہوتے تو ہم ان کی جدید آراء و افکار سے نئے انداز میں مستفید ہوتے، آپ امام (رح) کی فقہ کا مطالعہ کریں۔ کتاب الطہارۃ سے لے کر نجف میں تحریر کی گئی کتاب قبض و اقباض تک تمام مقامات پر امام نے نئے مطالب بیان کئے ہیں۔ صاحب جواہر اور صاحب مفتاح الکرامۃ بعض مقامات پر سختی سے کام لیتے ہیں لیکن امام نے کبھی بھی سختی اختیار نہیں کی۔ موسیقی و گانے کے سلسلہ میں مرحوم فیض کی نظر یہ کہ ان کی حرمت، ان کے مضمون پر مبنی ہے لہذا سب نے پر حملہ کیا لیکن امام کہتے ہیں کہ حملہ کی ضرورت نہیں بلکہ ان کا جواب دیا جائے۔


آیت اللہ العظمی صانعی نے بیان کیا: ہم صاحب جواہر اور شیخ انصاری کی فقہ کی بنیاد پر نو آوری کے قائل ہیں، نوآوری قرآن، سنت اور عقل کی بنیاد پر ہونی چاہئے، بیٹھ کر کچھ کہنا شروع کر دیں اسلام میں اس نام کی کوئی چیز نہیں ہے یہ مطلب عقل کے خلاف ہے اور ہم اسے عقل کے مطابق قرار دینا چاہتے ہیں ہم اس چیز کو تسلیم نہیں کرتے اور میرا عقیدہ یہ ہے کہ اسلام نے سب کچھ بیان کیا ہے۔ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا ہے: میں نے سعادت کے تمام اسباب بیان کئے ہیں اور شقاوت و بدبختی کے تمام اسباب سے نہی کی ہے۔


آیت اللہ العظمی صانعی نے کہا: قوانین نے ہماری ترقی کا ایک راستہ یہ ہے کہ اجماع کے سلسلہ میں ہم اصول میں شیخ کے مباحث پر دقت کریں اور ہم اس اجماع کو حجت قرار دیں جو ائمہ (ع) کے دور میں تھا اور ہم تک پہونچا ہے۔ لیکن وہ اجماع جو شیخ الطائفہ یعنی شیخ طوسی کے بعد کے اجماع کو کیوں؟ جو شخص جو بات کہے ہم فوراً نہ کہیں کہ اجماع کے خلاف ہے بلکہ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اس نے کس اجماع کے خلاف کہا ہے۔


آیت اللہ العظمی صانعی نے آیات و روایات کی تفسیر میں غور سے کام لینے کی تاکید کی اور اس آیت " لم یجعل اللہ للکافرین علی المومنین سبیلا" کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس آیت میں بہت سے احتمالات پائے جاتے ہیں۔ ایک احتمال یہ ہے کہ دلیل و برہان کے لئے ہو۔ ایک احتمال یہ ہے کہ قیامت کے لئے ہے اور ایک احتمال یہ ہے کہ قانون گزاری کے لئے ہو۔ قانون گزاری میں مومن پر کافر کو کوئی راستہ نہیں ہے۔ علامہ طباطبائی کہتے ہیں مذکورہ تمام احتمالات مد نظر ہیں۔ لیکن خدا کہتا ہے "للکافرین"۔


آخری حصہ میں آیت اللہ العظمی نے صانعی نے " کل شیء مطلق حتی یرد فیہ نھی" کے سلسلہ میں بھی گفتگو کی۔