کیا امام خمینی(رح) آیت اللہ منتظری کو تسلیم کرتے تھے جن کا شمار ان کے شاگردوں میں ہوتا ہے؟ یا ابتدا سے انہیں ملک کی آئندہ رہبری سے معزول کرنے کی فکر میں تھے؟

ID: 56911 | Date: 2018/12/23

کیا امام خمینی(رح) آیت اللہ منتظری کو تسلیم کرتے تھے جن کا شمار ان کے شاگردوں میں ہوتا ہے؟ یا ابتدا سے انہیں ملک کی آئندہ رہبری سے معزول کرنے کی فکر میں تھے؟


جواب: امام خمینی (رح) کے منجملہ شاگردوں میں ایک نمایاں شاگرد مرحوم آیت اللہ منتظری تھے۔ انہوں نے امام (رح) کے فلسفی دروس میں اس قدر محنت کی کہ وہ خود استاد بن گئے نیز وہ مرحوم آیت اللہ العظمی بروجردی کے محنتی شاگردوں میں سے بھی تھے اور امام (رح) کے درس خارج فقہ کے بھی شاگرد، اور فقہ میں ان افراد میں قرار پائے جیسے امام رح)کو توقع تھی وہ اصطلاحی اجتہاد کے علاوہ مبتلابہ جدید فقہی موضوعات میں بھی صاحب رائے اور صاحب نظر بن گئے، اور امام (رح) ایسے فقیہ سے کافی خوش تھے جو مبتلابہ جدید فقہی موضوعات میں سماج کا جوابگو بن سکے۔ اخلاقی اعتبار سے بھی وہ منکسر المزاج علمی، عوامی، تقوی، سادگی وغیرہ میں نمایاں شخصیات میں سے تھے۔ سیاسی اعتبار سے بھی ان کا شمار ان مزاحمتی افراد میں سے ہوتا تھا کہ جنہوں نے شاہی حکومت میں قیدخانوں میں اپنی شجاعت کا بخوبی مظاہرہ کیا۔ ضمناً انہوں نے نظر بندی وغیرہ میں بھی ہرگز مزاحمت سے پیچھے ہٹنا پسند نہیں کیا اور سیاست کا شکار نہ بنے حتی غیر مزاحمتی اور عوام الناس بھی ان سے لگاؤ رکھتے تھے۔ استکبار اور صہیونیزم کے خلاف مزاحمت کو انہوں نے ہمیشہ مورد توجہ قرار دیا۔ لیکن ان کی مثبت خصوصیات کے باوجود امام خمینی (رح) متوجہ ہو چکے تھے کہ وہ مرحوم نظارت و علمی پیچیدگی اور عملی سیاست میں کمزور ہیں جس کی طرف انہوں نے خود بھی اشارہ کیا۔ اسی طرح امام (رح) کا عقیدہ تھا کہ اگرچہ نظری مباحث میں ایک قابل اعتماد شخصیت ہیں لیکن سیاسی عمل میں لازمی حد تک سیاست سے دور ہیں اور اس کے نتیجہ میں دشمنوں کو دوست کے لباس میں آسانی سے نہیں پہچان سکتے۔ مرحوم آیت اللہ منتظری علماء کونسل کی جانب سے قائم مقام کے عنوان سے متعارف ہونے کے بعد( البتہ رہبر کا قائم مقام ہونا قانون میں پیشین گوئی کے عنوان سے پیش نہیں کیا گیا تھا) اس مطلب کی جانب متوجہ ہوچکے تھے کہ وہ اس مقام پر رہبر کا بازو بن کر مشکلات میں ان کا سہارا ہوں نہ یہ کہ ایسا مقام حاصل کرنے کے باجود پیش آنے والی مشکلات کو برطرف کرنے کے بجائے دوسرے عہدیداروں کی طرح صرف مشکلات بیان کریں اور ان کو برطرف کرنے کے بجائے صرف شکایت کریں اور سب سے بری بات یہ کہ اپنے گھر اور اپنے وابستہ افراد پر نظارت میں۔ سیاسی اور امنی حساسیت کے باوجود۔ نہایت غفلت اور افراطی طور پر عمل کریں۔


واضح ہے کہ اگر مرحوم آیت اللہ منتظری کی نظارت و عملی سیاست فقہی موضوعات کی شناخت کے مطابق اور انقلاب سے پہلے اپنے مزاحمتی راستوں پر قائم رہتی تو اس وقت امام (رح) کی زندگی میں قوی بازو اور اس کی رحلت کے بعد اسلامی نظام اور رہبری کے امین مددگار ہوتے۔ اگرچہ آیت اللہ منتظری امام خمینی (رح) کے اچھے شاگردوں اور ان کے جسم کا ٹکڑا شمار ہوتے تھے لیکن بعض مذکورہ دلائل کی وجہ سے حضرت امام خمینی (رح) نے آخرکار اپنی پوری بابرکت زندگی میں اپنی عملی سیرت کی بنا پر، اسلام اور اسلامی جمہوری ایران کی مصلحت کو دوسرے تمام امور پر ترجیح دیتے ہوئے انہیں رہبری کا قائم مقام نہ بنایا اور امام (رح) نے اس طریقہ سے اپنی شرعی ذمہ داری و فریضہ پر عمل کیا۔