مراجع کی تقلید کرنا کیوں واجب ھے؟

تقلید کے معنی، ایک غیر ماھر شخص کا کسی تخصصی کام میں اس کام کے ماھر کی طرف رجوع کرنا ھے۔ دینی مسائل میں تقلید کرنے کی اھم ترین دلیل، یھی عقلائی نکتہ ھے کہ ایک غیر ماھر انسان کو کسی تخصصی کام کے سلسلہ میں اس کام کے ماھر کی طرف رجوع کرنا چاھئے۔

ID: 56740 | Date: 2018/12/09

مراجع کی تقلید کرنا کیوں واجب ھے؟


تقلید کے معنی، ایک غیر ماھر شخص کا کسی تخصصی کام میں اس کام کے ماھر کی طرف رجوع کرنا ھے۔ دینی مسائل میں تقلید کرنے کی اھم ترین دلیل، یھی عقلائی نکتہ ھے کہ ایک غیر ماھر انسان کو کسی تخصصی کام کے سلسلہ میں اس کام کے ماھر کی طرف رجوع کرنا چاھئے۔


البتہ تقلید کے ضروری ھونے کے سلسلہ میں آیات و روایات بھی موجود ھیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے: "فاسئلوا أهل الذکر إن کنتم لا تعلمون" "اگر کسی چیز کو نھیں جانتے ھو تو عالموں سے سوال کرو۔"


لیکن قابل توجہ بات ھے کہ تقلید کی تمام لفظی دلالتیں وھی عقلا کی نظر میں قابل قبول امر ھے۔


اس بنا پر مراجع تقلید، فقہ کے ماھر ھیں کہ الھی احکام کو شرعی منابع سے استنباط کرنے کی صلاحیت رکھتے ھیں اور دوسروں پر ضروری ھے کہ دینی مسائل کے سلسلہ میں ان کی طرف رجوع کریں۔


اسلام نے انسان کی مادی و معنوی، انفرادی و  اجتماعی اور سیاسی و اقتصادی ضرورتوں کے مطابق قوانین اور مقررات وضع کئے ھیں، جو فقہ کی مختلف کتابوں میں تدوین اور تالیف ھوئے ھیں اور علم فقہ کو تشکیل دیتے ھیں۔ حقیقت میں علم فقہ، بندگی کی اصلی روش ھے، زندگی کے عالی ترین ںظام کے انسانی اور اجتماعی روابط کی صحیح کیفیت ھے جو انسانی زندگی کے تمام ابعاد پر ناظر ھے اور امام خمینی (قدس سرہ) کی تعبیر میں: " فقہ، انسان و اجتماع کو گہوارہ سے لحد تک ادارہ کرنے کی حقیقی تھیوری ھے۔


فقہ اور شرعی احکام کی غیر معمولی اھمیت کے پیش نظر، ائمہ اطھار علیھ السلام اپنے پیرﺆں کو اس کی تعلیم حاصل کرنے کی سفارش کرتے تھے اور جو لوگ اس اھم فریضہ کے سلسلہ میں پھلو تھی کرتے یا احکام شرعی کی تعلیم حاصل کرنے میں سہل انگاری کرتے تھے، انھین سزا و سرزنش کا مستحق جانتے تھے۔


امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:" اگر کسی شیعہ نوجوان کو میرے پاس لایا جائے جو تفقہ( غور وفکر) نھیں کرتا ھے، میں اس کی تادیب کروں گا۔


اسلامی شریعت میں، کچھ واجبات اور محرمات ھیں کہ خداوند حکیم نے انھیں انسان کی دنیوی و اخروی سعادت کے لئے تشریع کیا ھے اور اگر انسان ان کی اطاعت نہ کرے، تو نہ مطلوبہ سعادت تک پھنچے گا اور نہ ان کی نافرمانی کے عذاب سے بچ سکے گا۔ اس سلسلہ میں مکلف کے سامنے تین راستے ھیں:


1۔یہ کہ اس علم (اجتہاد) کو حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ھوجائے۔


2۔ یہ کہ ھرکام کے بارے میں موجود نظریات کا مطالعہ کرکے، اس طرح عمل کرے کہ تمام نظریات کے مطابق اس کا عمل صحیح ھو۔( یعنی احتیاط کرے)


3۔ یہ کہ جس شخص نے ان علوم کی مکمل طور پر تعلیم حاصل کی ھے اور شرعی احکام کو پھچاننے میں ماھر ھے، اس کے نظریہ سے استفادہ کرے۔ بیشک اگر وہ پھلی راہ میں اجتہاد تک پھنچ جائے، تو وہ شرعی احکام کا ماھر بن جاتا ھے اور دوسری دوراھوں سے بے نیاز ھوتا ھے، لیکن اجتہاد حاصل کرنے تک باقی دوراستوں سے استفادہ کرنے کے لئے مجبور ھے۔


دوسری راہ کے سلسلہ میں ھر مسئلہ کے بارے میں موجود مختلف نظریات کے سلسلہ میں کافی اطلاعات رکھنا، احتیاط کی روش ھے اور بھت سے مواقع پر احتیاط کے سخت ھونے کی وجہ سے، اس کی عادی زندگی درھم برھم ھوتی ھے۔ اس لئے عوام الناس کے لئے "تقلید" کا راستہ انتخاب کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نھیں ھے اور یہ راستہ عام لوگوں کے لئے سہل و آسان ھے۔ یہ تین راستے صرف شرعی احکام سے ھی مخصوص نھیں ھیں، بلکہ زندگی کے دوسرے مسائل میں بھی ان کی ضرورت ھوتی ھے۔