اجتماعی عدالت امام خمینی(رح) کی نگاہ میں

اسلام ہی صرف عدالت و آزای کا علمبردار اور مظلوموں کا حقیقی مدافع ہے( صحیفۂ امام/ج۳/ص۳۱۷)

ID: 56230 | Date: 2018/11/09

اجتماعی عدالت امام خمینی(رح) کی نگاہ میں


اسلام ہی صرف عدالت و آزای کا علمبردار اور مظلوموں کا حقیقی مدافع ہے( صحیفۂ امام/ج۳/ص۳۱۷)


عدالت، منجملہ اہم بحثوں میں سے ہے جو تمام خدائی ادیان، حکماء اور سیاسی و سماجی علوم کے ماہرین  میں مشترک ہے نیز جو ہمیشہ انسانی علوم و معارف کے  مختلف میدانوں میں مورد توجہ رہی ہے۔ اسلامی نظام میں عدالت  اور بالخصوص اس کا نفاذ اسلامی حکومت کے اہم مقاصد میں سے شمار ہوتا ہے جیساکہ قرآن مجید میں انبیاء الہی کی بعثت کا مقصد،معاشرہ میں عدل و انصاف کے سایہ میں  انسانوں کی اجتماعی و انفرادی سعادت کا حصول  قراردیا گیاہے۔


 لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَ أَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَ الْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط۔۔۔۔ (حدید/۲۵)۔


ترجمہ: بےشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔


اسلامی افکار میں مفہوم عدالت کے لغوی اور اصطلاحی  اور اس کے تاریخی ادوار کی تحلیل پر مبنی بحثوں سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف امام خمینی(رح) کی افکار میں بالخصوص مفہومِ عدالت کی بررسی کے بعد کچھ خصوصیات و معیارات کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے کہ امام(رح) ان خصوصیات میں عدالت کو متعارف کراتے ہیں مثال کے طور پر ان اصول کے تعارف میں مندرجہ ذیل اصول کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے:


عدالت، خدائی واضح صفات میں سے ایک صفت ہے جس کا مطلب انسانی فضائل میں سب سے بڑی  فضیلت، انسانی وجودمیں رسوخ کرنے والی ہمیشگی طاقت،جنودِ عقل میں قرارپاتے ہوئے حق و باطل کی تشخیص کا معیار، انسان اور سماج کی پہچان کا انتہائی مقصد، سیرت انبیاء اور اوصیائے حق  کی پہچان کا معیار،قابلیتوں کے بار آور ہونے اور ان کے رشد کا سبب اور انسانی معاشروں کو سکون اور وسعت بخشنے کے اسباب میں سے ایک سبب وغیرہ  وغیرہ ہے۔


ایک اعتبار سے حضرت امام(رح) کی کتابوں اور مکتوبات پر نگاہ ڈالنے سے مفہومِ عدالت کو ان کی نظر میں تین حصوں ابتدائی، درمیانی اور انتہائی میں تقسیم کیا جاسکتاہے کہ اس بناپر ان کی تاکید اس چیز پر تھی کہ عدالت کا نکتۂ آغاز خود انسان ہے اور اس کے بعد دوسرے افراد، دوسرے گروہ ہیں اور اس کے بعد اس کا نفاذ معاشرہ میں ہوتاہے اور آخرکار اسے بین الاقوامی میدان میں مختلف معاشروں میں پیش کیا جاسکتاہے۔( عدالت از دیدگاہ امام خمینی(رح)، ابراہیم ایران نژاد، ص۶۹)


دوسرے حصہ میں عدالت کہ شائد یہ کہا جاسکتاہے کہ دوسری تمام وجوہات سے زیادہ  حضرت امام(رح) کے نزدیک تاکید و توجہ کا مورد ٹھہرا ہے وہ دو پہلو یعنی انفرادی اور اجتماعی ۔سیاسی دوام پاتاہے  جسے ہم اجمالی طور یہاں بیان کررہے ہیں:


انفرادی عدالت


انفرادی عدالت امام خمینی(رح) کی نگاہ میں ایک فطری اور ذاتی مسئلہ ہے اور اسے ایک اخلاقی صفت شمار کیا جاتا ہے جو انسان کو گناہوں سے محفوظ رکھتی ہے حقیقت میں ابتدائی طور پرہر انسان کے سامنے عدالت کا نفاذ کیا جائے  تا کہ وہ اس میدان میں اسے انسانیت کی طرف لے جائے۔ عدالت کا یہ حصہ اس قدر اہم اور مؤثر ہے کہ اسلامی نظام میں اس کے بغیر اجتماعی۔سیاسی عدالت کامعاشرے  میں مکمل طور پر نفاذ ناممکن ہے۔ لہذا ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ انفرادی صورت میں عدالت کا فقدان، امام خمینی(رح) کی نگاہ میں دنیا میں صالحین کی حکومت اور حضرت مہدیؑ کی عدل پر مبنی حکومت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔


 حضرت امام مہدیؑ کی عادلانہ حکومت میں بھی عدالت کا نفاذ ہوگا لیکن نفسانی خواہشات بہت سے افراد و قبائل میں باقی رہیں گی اور انہی نفسانی خواہشات کی وجہ سے امام مہدیؑ کا انکارکریں گے جیسا کہ بعض روایات میں ذکر ہوا ہے۔( صحیفۂ امام، ج۱۰، ص۳۷۷و ۳۷۸)


اس بنا پر توجہ رکھنا چاہئے کہ اسلام کا بنیادی تقاضا انسانی وجود میں عدالت کا نفاذ ہے تا کہ اس طریقہ سے ہر طرح کے ظلم کا خاتمہ ہوجائے اور انسان  اس میدان میں راہِ عدالت پر قائم رہتے ہوئے تزکیۂ نفس اور نفسانی  و اخلاقی تہذیب  کو اہمیت دے نیز امام(رح) فرماتے ہیں: سب سے بڑا (سرمایہ) تقوی ہےجس کے بارے  میں قرآن اور حدیث نے اس قدر تاکید کی ہے  کہ انسان متقی ہو، اپنی حفاظت کرے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی زبان، آنکھ، کان سے لوگوں پر ظلم کرے،لہذا عدالت برپا کرو، دوسروں کے لئے عدالت کا مطالبہ کرو، تمہارے رفتار و کردار میں عدالت ہونا چاہئے، گفتار میں عدالت ہو نا چاہئے۔ ( صحیفۂ امام، ج۱۶، ص۱۶۲)


سماجی۔سیاسی عدالت


سماجی عدالت انسانی معاشرہ کے اتحاد، اختلاف و افتراق سے اجتناب کے اہم ترین اسباب میں سے ہے اس کے برخلاف  غیر عادلانہ سماج تمام قسم کے اجتماعی فسادات، اختلافات اور افتراقات کا سرچشمہ ہے۔ معاشرہ اور سیاسی، اجتماعی، اقتصادی اور عدالتی مراکز  میں عدل و انصاف کے مسئلہ پرحضرت امام(رح) کی توجہ اور تاکیداس اہم چیزکو بیان کررہی ہے کہ امام(رح)  عدالت کو نہ صرف ایک انفرادی صفت یا فضیلت سمجھتے ہیں بلکہ اسے ایک اجتماعی و سیاسی صفت قراردیتے ہیں۔ان کی نگاہ میں عدالت سیاسی و اجتماعی قوانین پر مبنی ایک صفت ہے نیز سیاسی و اجتماعی مراکز و گروہوں کی ایک خصوصیت ہے اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ عدالت، انسانی سماج کی ایک خصوصیت و صفت ہے۔


 اسلامی جمہوریت میں ظلم نہیں ہے، اسلامی جمہوریت  میں زبردستی نہیں ہے۔۔ خدائی عدالت اس پر سایہ کناں ہے۔( صحیفۂ امام، ج۶، ص۵۲۵)


دوسری طرف سے حضرت امام(رح) کی نگاہ میں توحیدپر مبنی سماج میں خدائی عدالت تمام قسم کے امور کا سرچشمہ ہےلہذا سماج میں نفاذِ عدالت عدل الہی اور توحیدکا ایک حصہ ہے۔ کیونکہ توحیدی سماج میں تمام قسم کے امتیازات مٹ جاتے ہیں اور صرف تقوی تمام امور کا معیار ہوتا ہے۔


 ایک عہدیدار سماج کے سب سے نچلے شخص کے برابر ہے ، خدائی اور انسانی معیار و ضوابط تمام عہد و پیمان کی بقا، یا روابط منقطع  کرنے کی بنیاد ہے۔(صحیفۂ امام، ج۵، ص۸۱)


اسی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا جاسکتاہے کہ حضرت امام(رح) کا عقیدہ یہ ہے کہ معاشرہ میں عدل الہی ۔اگرچہ نسبتی طور پر ہی ہو۔کا نفاذ ممکن ہے اوراس بنیاد پر معاشرہ میں عدالت کے نفاذ کے لئے انسان قدم اٹھاسکتاہے چاہے وہ   حکومت کی تشکیل کی صورت میں ہو یا سیاسی نظم و ترتیب ایجاد کرنے کی شکل میں ہو۔


 البتہ عدالت اپنی وسیع شکل میں  وہی خدا وندمتعال کی صفت ہے ان  افراد کے لئے جو عمدہ سوچ کے حامل ہیں، عدالت کی بحث بھی کرتے ہیں، سماجی عدالت بھی ان ہی کے ہاتھوں میں ہے، حکومت بھی تشکیل دیتے ہیں وہ حکومت جو عادلانہ حکومت ہو۔( تفسیر سورۂ حمد، ص۱۷۱)


حضرت امام(رح) کی نگاہ میں اسلام ہی صرف وہ دین ہے جس نے مکمل طور پر تمام پہلوؤں میں عدالت کے نفاذ کو پیش کیا ہے اور اس کی پہچان اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہونے کے نتیجہ میں سماج میں اس طرح کی عدالت برپا کی جاسکتی ہے۔


 ہم اس ملک میں اسلامی عدالت کو برپا کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ ایسا اسلام جس میں عدالت ہو، وہ اسلام جس میں ذرہ برابر بھی ظلم نہ ہو۔( صحیفۂ امام، ج۹، ص۴۲۴۔۴۲۵)


مجموعی طور پر حضرت امام(رح)کی سب سے بڑی آرزو و امید کو ایک اعتبار سے انسانی نفس میں عدالت برپا کرنا اور تمام پہلوؤں میں عدل و انصاف کا نفاذ اور انسانی معاشرہ میں اس کے مختلف پہلو،سمجھنا چاہئے  اس طرح کہ افراط و تفریط کی کوئی گنجائش باقی نہ رہےنیز ہر چیز اپنی جگہ پررکھی جائے البتہ یہ عدالت، مذہب اسلام کے بلند ترین مقاصد میں، حیاتِ انسانی کے تمام مادی و معنوی پہلوؤں کو شامل ہے۔


 تمام انبیاء نفاذِ عدالت کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔۔۔نہ وہ عدالت جسے عام انسان سمجھتے ہیں کہ زمین میں صرف  لوگوں کے سکون کی خاطرعدالت برپا کی جائے، بلکہ انسانیت کے تمام مراتب میں عدالت کا ہوناا لازمی ہے۔ ( صحیفۂ امام، ج۱۲، ص۴۸۰)


معاونت امور بین الملل مؤسسہ تنظیم و نشر آثار حضرت امام(رح)