خدا کے بندوں کی توہین

میں تم سے اجر رسالت نہیں چاہتا مگر یہ کہ تم میرے قرابتداروں سے دوستی اور محبت کرو

ID: 55760 | Date: 2018/10/07

بے خبر، خود پسند اور متکبر انسان کے لئے ایک بری صفت جو پیش آتی ہے وہ خدا کے بندوں کی توہین کرنا ہے۔ شریعت اسلام میں یہ عمل حرام اور ہلاکت کا باعث ہے۔ رسولخدا (ص) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: جو شخص بھی کسی مومن اور خدا کے محبوب کو ذلیل و خوار سمجھے تو اس کی مثال اس طرح ہے کہ خداوند عالم سے جنگ کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ہو۔ بندوں کو خالق و مخلوق کے رابطہ کو نظر میں رکھنا چاہیئے اور لوگوں کی طرف احترام کی نظر کریں اور جان لیں کہ مخلوق کی توہین خالق کی توہین ہے۔


اس صفت کی ضد تعظیم اور تکریم ہے جو حق کی خوشنودی اور رضا کا موجب اور خدا کے غضب سے محفوظ ہونے کا باعث ہوتی ہے۔ مومن کا اکرام اور احترام کرنا خداوند عالم کی تعظیم اور تکریم ہے۔ یہ بات آزمودہ ہے کہ جو شخص بھی لوگوں کی جانب جس زاویہ سے نگاہ کرتا ہے اور ان کے ساتھ رفتار کرتا ہے لوگوں بھی اس کے ساتھ اسی نظریہ سے دیکھتے ہیں۔ بالخصوص صاحبان علم اور زہد و ورع اور اہل تقوی کا ان کے شایان شان احترام کرنا چاہیئے کیونکہ ایسا کرنا نیکیوں اور اخروی اجر و ثواب اور بے شمار جزا کا باعث ہے۔


"اکرمو کبارکم و ارحموا صغارکم" بڑوں کا احترام کرو اور چھوٹوں پر رحم کرو۔ امام صادق (ع) نے فرمایا ہے: وہ ہم سے نہیں ہے جو بزرگوں کا احترام نہ کرے اور اطفال پر رحم و شفقت نہ کرے۔


دوسرا گروہ جس کا احترام اور اکرام کرنا چاہیئے وہ اولاد پیغمبر (ص) ہے کہ آیہ کریمہ: "قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودة فی القربی" کہو میں تم سے اجر رسالت نہیں چاہتا مگر یہ کہ تم میرے قرابتداروں سے دوستی اور محبت کرو، کی روشنی میں۔


اہلبیت (ع) کے ساتھ محبت اور مودت سرور کائنات حضرت محمد مصطفی (ص) کی رسالت کا اجر و ثواب ہے۔ آپ (ص) نے فرمایا: سادات کے نیک لوگوں کے ساتھ خدا کے لئے اور برے لوگوں کے ساتھ میری وجہ سے دوستی اور محبت کرو اور ان کے کاموں اور مشکلات میں ان کی امداد کرو۔


ظلم مذموم اور ناپسندیدہ صفت ہے اور وہ بے جا کام کرنے اور حد وسط سے آگے بڑھنے کا نام ہے (خواہ افراد کے لحاظ سے ہو یا تفریط کے لحاظ سے) ظلم اس معنی میں تمام عقلی اور شرعی برے صفات اور ناپسندیدہ اعمال کو شامل ہے۔


اس سے محدود تر معنی ظلم غیر کو اذیت اور نقصان پہونچانے کا نام ہے خواہ وہ نقصان پہونچانے قتل کے ذریعہ ہو یا مار پیٹ یا گلم گلوج کے ذریعہ ۔ زیادہ تر یہی معنی مد نظر ہے کہ قرآن کریم میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے: "ولا تحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظالمون" اور خدا کو غافل مت سمجھو اس سے جو ظالمین کرتے ہیں۔ یعنی خداوند عالم ظالموں کے کرتوت سے غافل اور بے خبر نہیں ہے۔ اور قرآن کریم میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے: "و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون" ظالموں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ انتقال کے کس دوزخ میں پلٹائے جائیں گے۔


اگر اس قسم کا ظلم کینہ و کدورت اور عداوت و دشمنی کا باعث ہو تو یہ قوہ غضبیہ کا نتیجہ ہے اور اگر حرص اور دوسروں کے مال غصب کرنے سے مربوط ہو تو قوہ شہوانی کی رذیلت میں سے ہوگا۔ بہر صورت ظلم انسانی گناہوں میں سے بدترین اور سخت ترین گناہ ہے جو بہت زیادہ عذاب، ندامت اور ہلاکت کا باعث ہوتا ہے اور اس کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ خداوند عالم بہر صورت دنیا و آخرت میں اسے اس کے ظلم کی سزا دے گا۔