مولوی عبدالحمید:

هاشمی، اہل سنت کے ہمدرد تھے

مولوی عبدالحمید: ہاشمی نے دین اسلام میں موجود ظرفیت پر بحث کرتے ہوئے مشترکہ عقائد کو زیر بحث لانے پر زور دیا تھا۔

ID: 51532 | Date: 2018/01/22

مولوی عبدالحمید: ہاشمی نے دین اسلام میں موجود ظرفیت پر بحث کرتے ہوئے مشترکہ عقائد کو زیر بحث لانے پر زور دیا تھا۔


آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کی پہلی سالگرہ کے موقع پر ایران کے معروف اہل سنت مذہبی رہنما مولوی عبدالحمید سے ملاقات؛ آپ سیستان اور بلوچستان کے اہل سنت کے ہاں بےحد مقبول شخصیت ہیں؛ اسلامی جمہوریہ ایران کے عہدیداروں کے ساتھ مولوی صاحب کے فراز و نشیب پرمشتمل روابط رہیں ہے اور ان تعلقات کا ثمر، شیعہ اور اہل سنت کے مابین مسالمت آمیز اور خوشگوار تعلقات، دیکھنے کو ملتا ہے۔


مولوی عبدالحمید کے ساتھ ایلنا خبررساں ایجنشی کیجانب سے انٹرویو کے متن کو قارئین کی خدمت پیش کررہے ہیں۔


نامہ نگار: مولوی صاحب! گفتگو کے آغاز کےلئے، آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کے متعلق حوالے سے کسی یادگار لمحے کیجانب اشارہ فرما لیجئے؛ مہربانی ہوگی۔


مولوی صاحب: آیت اللہ ہاشمی سے متعلق یادگار لمحہ وہ ہے جب مذہبی گفتگو کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس میں شرکت کی غرض سے سعودی عرب کے دورے کے دوران ہم دونوں ہمسفر تھے، اس کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں سابق سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ اور الازہر یونیورسٹی کے سربراہ سمیت آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے خطاب کیا تھا۔


اسرائیل اور امریکہ کےخلاف مرحوم رفسنجانی کی دلچسپ اور تمام آسمانی ادیان کے مشترکات کیجانب اشارہ کرتے ہوئے اختلافات سے مؤثر خطاب کو سراہتے ہوئے تمام مہمانوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔


انہوں نے اپنے خطاب میں دین اسلام کے اندر موجود ظرفیت پر بحث کرتے ہوئے اختلافی مسائل پر بحث کرنے سے گریز کرتے ہوئے مشترکہ عقائد کو زیر بحث لانے پر زور دیا تھا۔


نامہ نگار: مرحوم کی اخلاقی خصوصیات کیجانب اشارہ کرتے ہوئے ان کی کارکردگی پر آپ کی  اپنی تنقیدات کیا ہیں؟



مولوی صاحب: «اذکروا موتاکم بالخیر» " اپنے مرحومین کو نیکی سے یاد کرو" حدیث کے تناظر میں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ ان پر کوئی تنقید نہیں، اگرچہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم جیسے بعض خاص انسانوں کے علاوہ کوئی بھی انسان، انتقادی پہلو سے مبرا نہیں ہے۔


آٹھ سال اسلامی جمہوری صدارت کرنے کے بعد، مرحوم رفسنجانی صاحب، تہران سے مجلس شورائے اسلامی کے نمائندے کی حیثیت سے ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے، اس کی وجہ ان پر عوام کیجانب سے ہونے والی تنقید تھی۔ انتخاب میں ناکامی کے بعد مرحوم رفسنجانی نے فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے اپنی پالیسی تبدیلی کردی جس کے نتیجے میں وہ خبرگان رہبری کے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے سرفہرست رہے اور عوام میں بے پناہ  مقبولیت کی وجہ سے ان کے جنازے میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی جو اس بات کی عکاسی کرتی ہےکہ وہ اپنی فہم و فراست کی وجہ سے دور حاضر کے ایک بااثر شخصیت کے عنوان سے جانے پہچانے جاتے تھے جبکہ بہت سے افراد اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے بغیر کسی تبدیلی کے اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔


نامہ نگار: مرحوم کی سب سے اہم خصوصیت کیا تھی؟


مولوی صاحب: آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی، اسلامی شریعت اور قانون کے دائرے میں لوگوں کی آزادی کے خواہاں تھے اور ان کا یہ موقف تھا کہ لوگوں کو آزادی سے محروم نہ کیا جائے، وہ تنگ نظری اور انتہا پسندی کے سخت مخالف تھے اور اسلامی قانون کے دائرے میں مذہبی آزادی کے ساتھ، آزادی بیان کے بھی حامی تھے۔


نامہ نگار: مذہبی اقلیتوں کے اعلی سرکاری عہدوں پر فائز ہونے سے متعلق آیت اللہ رفسنجانی کا موقف کیا تھا؟


مولوی صاحب: جناب ہاشمی رفسنجانی، اہل سنت کے بہت ہمدرد تھے؛ آپ سے ملک کے مختلف علاقوں سے سنی علماء کے ایک گروپ کی ملاقات کے دوران، جہاں آزادی کا مسئلہ زیر بحث آیا وہیں مذہبی اقلیتوں میں اہل سنت اور دیگر اقوام کے ساتھ امتیازی سلوک کو بھی زیر بحث لایا گیا۔ اس ملاقات میں، انہوں نے کہا:


"اہل سنت کو ان کے حقوق دئے جانے چاہئے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے، کیونکہ ایران میں موجود اہل سنت اقلیت کے ساتھ احسان، درحقیقت دوسرے سنی اکثریت ریاستوں میں موجود شیعہ اقلیتوں کے ساتھ احسان کے مترادف ہوگا؛ گویا ہم نے پوری دنیا کے شیعوں کے ساتھ نیکی کیا ہے"۔


ان کی پالیسی میں رونما ہونے والی یہ تبدیلیاں جس میں حقایق کا بیان، اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام، ایرانی عوام اور دنیا میں بسنے والے شیعہ اور مسلمانوں کے مسائل کےلئے فکرمند ہونا، یہ وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے وہ لوگوں میں بےحد مقبول تھے اسی لئے ان کے انتقال نے ملک کی عوام کو سخت متاثر کردیا۔


مرحوم رفسنجانی اس بات کے معتقد تھےکہ ہمیں مذاہب اور اقوام کے درمیان فرق کا قائل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ مستقبل میں مسائل کا باعث بن سکتا ہے اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کا مذاہب میں غیر تبعیض سے متعلق حالیہ بیان، نظام کےلئے اہم اور موثر ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر یہ تاریخی دستور عملی شکل اختیار کرجائے تو ملک ہر قسم کی آفتوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔


نامہ نگار:  ۲۰۱۴ء میں مرحوم کو نا اہل قرار دئے جانے کے بعد، آپ کا رد عمل کیا تھا؟


مولوی صاحب: مرحوم آیت اللہ رفسنجانی کو نااہل قرار دئے جانے کے بعد، نماز جمعہ کے خطبوں میں، میں نے انتقاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی قوم، جناب رفسنجانی جیسی شخصیت کے نااہل قرار دئے جانے کو مسترد کرتی ہے کیونکہ ان کا شمار اسلامی انقلاب کے سرمایوں میں ہوتا ہے۔ ان کےخلاف ہونے والے پروپیگنڈوں کے جواب میں، میں کہا کرتا تھا کہ وہ یار امام ہونے کے ساتھ ساتھ، رہبر معظم انقلاب اسلامی کے گہرے دوست بھی ہیں کہ جس نے ہمیشہ بانی انقلاب اسلامی کو تمام مسائل میں اچھے مشوروں سے نوازا ہے، مرحوم رفسنجانی جہاں امام خمینی کو اپنے مفید مشوروں سے نوازتے تھے وہیں رہبر معظم کے خصوصی مشاور بھی تھے، انقلاب اسلامی کےلئے بہت ساری خدمات انجام دی ہے اور انہیں اس راہ میں جیل کی سزا بھی بھگتنا پڑی، جہاں ان پر منصفانہ تنقید ہونا چاہئے وہیں ان کے احترام کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے۔


نامہ نگار: ایران اور پڑوسی ممالک، خاص طور پر سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی کم کرنے میں آیت ‌الله کے کردار کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟



مولوی صاحب: مرحوم رفسنجانی کا کردار، خاص طور پر شاہ عبداللہ کی زندگی کے دوران بہت اچھا اور مؤثر تھا، سعودی عرب کے فرمانروا ملک عبداللہ کے مرحوم رفسنجانی کے ساتھ گہرے تعلقات تھے، اب جبکہ شاہ عبداللہ اور ہاشمی دونوں ہمارے درمیان نہیں رہے تاہم ہاشمی کی طرح کوئی دوسری شخصیت نہیں ہے جو سعودی حکام کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرسکے۔


بدقسمتی سے موجودہ صورتحال بھی بہت نازک ہے اور مسلم دنیا ہر طرح سے منتشر ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی سے مسائل اور بھی سنگین رخ اختیار کرسکتے ہیں، خدا کرےکہ یہ مسائل جلد حل ہوجائیں۔


میرے خیال میں رفسنجانی ایک مؤثر سیاستدان کے طور پر تہران اور ریاض کے درمیان مسائل میں کشیدگی کو کم کرنے میں واقعی مؤثر کردار ادا کرسکتے تھے۔


نامہ نگار: مرحوم رفسنجانی اور آپ کے درمیان کوئی ایسی بات جو انکی موت کے سبب اس کے اظہار سے گریز کرتے ہوں؟


مولوی صاحب: میں نے اپنی تمام باتوں کو ملاقات کے دوران آیت اللہ ہاشمی سے کہہ دیا تھا، وہ تمام باتیں جو میری نظر میں نظام اسلامی، ایرانی عوام اور ایران کے مفاد میں ہوسکتی تھی، اہل سنت کی مشکلات سمیت دنیا کو درپیش مشکلات سے انہیں آگاہ کیا تھا اور بہت سے مسائل میں میرے رائے سے اتفاق کرتے تھے تاہم بعض مسائل میں وہ معذرت خواہی سے کام لیتے تھے۔