کیوں امام حسين(ع) نے حج کو تمام نہیں کیا؟

اگر امام (ع) حرم الہی ميں قتل ہوتے تو حرم کی ہتک حرمت ہوجاتی۔

ID: 49686 | Date: 2017/10/10

اگر امام (ع) حرم الہی ميں قتل ہوتے تو حرم کی ہتک حرمت ہوجاتی۔


امام حسين عليہ السلام کے قيام کا مقصد، دين اور اسلامی شريعت اور پيغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی سنت کو احياء کرنا تھا لہذا ظہر عاشورا اپنی جان کو خطرے ميں ڈال کر بھی ان احکام کے پابند رہے۔


کافی شریف ميں امام صادق (ع) سے روایت ہےکہ:


عَنْ أَبِی عَبْدِاللَّهِ (ع)... فَإِنَّ الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ (ع) خَرَجَ قَبْلَ التَّرْوِیَةِ بِیَوْمٍ إِلَى الْعِرَاقِ وَ قَدْ کَانَ دَخَلَ مُعْتَمِراً؛ یعنی حسين ابن علی (عليہما السلام) آٹھ ذی الحجہ سے پہلے مکہ سے [عراق کیطرف] نکلے ہيں جبکہ عمرہ کی نیت سے عمرہ کے احرام کے ساتھ مکہ ميں داخل ہوئے تھے اور عمرہ بجا لاچکے تھے۔


اور تاريخی نکتہ نظر سے يہ سوال اٹھاتا ہےکہ حضرت (ع) نے تبلیغ کی بہترین فرصت کو یعنی موسم حج میں یزیدیوں کے ناپاک عزائم فاش کرنے کا سنہری موقع کو ہاتھ سے جانا کیوں دیا؟ اس کے جواب ميں دو نکات کیطرف اشارہ کرتے ہیں:


أ) معاشرتی حیثیت کی نگاہ سے امام حسين (ع) کی شخصيت اور حج کی اہميت کے پيش نظر، امام (ع) کی اس حرکت نے سب کی توجہ نواسہ رسول کیطرف مرکوز کی کہ حاجيوں کے بہترين راہنما اور مناسک حج کی انجام دہی کےلئے شايستہ ترين فرد نے، کيوں مکہ ترک کيا؟


امام (ع) کا اس طرح سے نکلنا ظالم اور فاسد يزيد اور یزیدی حکومت کے خلاف تبليغی اور معاشرتی طور پر ايک بڑا قدم تھا۔


ب) امام حسین (ع) کا مکہ سے آٹھ ذی الحجہ کو کوفہ کیطرف نکلنا، ذہنوں ميں سوال ايجاد کيا اور آپ سے دريافت بھی کی، جن ميں سے ايک ابن عباس تھے، آپ نے جواب ميں فرمايا: "مکہ، حرم امن الہی ميں قتل ہونے سے زيادہ، کسی اور جگہ پر قتل ہونا مجھے زيادہ پسند ہے"۔


اگر امام (ع) حرم الہی ميں قتل ہوتے تو حرم کی ہتک حرمت ہوجاتی، اگرچہ اس عظيم گناہ کے مرتکب، اموی قاتل اور مجرم لوگ ہوتے۔