کيا ايک شر پسند راکٹ مین کافی نہيں؟

امام خمینی: سب لوگوں کا فرض ہےکہ اگر شر پسندوں کے ہاتھ میں اسلحہ ہو تو ان سے چھین لیں۔

ID: 49480 | Date: 2017/09/27

امام خمینی: سب لوگوں کا فرض ہےکہ اگر شر پسندوں کے ہاتھ میں اسلحہ ہو تو ان سے چھین لیں۔


واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق، امريکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مخصوص انداز ميں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ايک عجيب اور جنگ طلبانہ خطاب کے ذريعے سامعين کا سکون خراب کيا۔


اس نے ابتدا ميں " کم جونگ ان " کو « شر پسند راکٹ مین »  کا لقب دے کر شمالی کوريا کا مذاق اڑايا اور پھر اسے تنبيہ کيا کہ اگر امريکہ کو چھيڑا تو « شمالی کوريا کو مکمل طور پر نابود » کرےگا۔


ليکن اس سے زيادہ پريشان کن مسئلہ، ايران کے ساتھ ہونے والے جوہری مذاکرات سے خارج ہونے کے بارے ميں ٹرمپ کا کنايے آمیز والی دھمکی تھی۔


حسن روحانی نے اس کے جواب ميں کہا: « اگر امريکہ کسی بھی صورت ميں معاہدہ توڑنے کا ارادہ کرے تو اس کا مطلب يہ ہوگا کہ ہم ملکی مفادات کے پيش نظر کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہيں »۔


يہ باتيں 2002 کی ياد تازہ کراتی ہيں، جب امريکہ نے شمالی کوريا کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو توڑنا چاہا تو شمالی کوريا کے جوہری پروگرام کو روکنے کی فرصت کو بھی ہاتھ سے دے بيٹھا۔



اگر امريکہ پندرہ اکتوبر کو ايران کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر باقی رہنے سے انکار کرے تو اس کا نتيجہ يہی ہوگا کہ ايک اور ايٹمی طاقت اس سے دور ہوجائے جو امريکہ کو ضرر پہنچانے کی صلاحيت رکھتی ہےـ


دونوں واقعات ايٹمی بلند پروازی کی وجہ سے رونما ہوئےـ اگرچہ ايران اور شمالی کوريا دونوں بين الاقوامی پريشر ميں تھے اور اپنی ايٹمی فعاليت کو روک ديا ليکن دونوں ميں کچھ فرق تھاـ شمالی کوريا پلوٹينيم پر کام کر رہی تھی جبکہ ايران کی پوری توجہ يورينيم کی افزودگی پر تھی۔


امريکہ اور شمالی کوريا نے بہت جلدی ايک موافقت نامے پر مذاکرات کيا جس کے دائرہ کار پر 1994 ميں دستخط ہوئے يعنی بحران کے دو سال بعد؛ جبکہ ايران کے بارے ميں تشويش کئی سال طول پکڑی اور آخرکار ایران اور عالمی طاقتوں میں جوہری معاہدے (برجام) کے نام پر ختم ہوا


اصل مسئلہ يہ ہےکہ جس ملک ميں ابھی جوہری اسلحہ نہيں ہے اسے جوہری ہتھيار کو ترک کرنے کی ترغيب دينا آسان ہےـ اس وجہ سے اوباما کی گورنمنٹ نے اس ايران کےلئے چارہ جوئی کرنے کا سوچا جو ابھی ايٹمی طاقتوں ميں شمار نہيں۔


اکثر حکومتی افراد کو معلوم ہونا چاہيے کہ ايران کے ساتھ دوبارہ يہ مذاکرات ہونا کسی بھی صورت ميں ممکن نہيں ہے؛ اگر ٹرمپ مذاکرات کو ترک کرے اور ايسا لگ بھی رہا ہے، تو ممکن ہے يہ واقعہ بھی بالکل شمالی کوريا کی طرح اپنے اختتام کو پہنچے اور يہ ايک اسٹراٹيجک غلطی کہلائےگی... کيا ايک « شر پسند راکٹ مین » کافی نہيں ہے؟


۔ ۔ ۔


کم جونگ ان، امریکہ کےلئے بڑی پریشانی


امریکہ دنیا میں اپنے آپ کو سپر پاور سمجھتا ہے لیکن اس سپر پاور کے سامنے ہمیشہ سینہ چھوٹے ممالک نے تانا ہے۔ ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے بعد امریکہ یہ تصور کرتا رہا ہےکہ اب کوئی بھی ملک اس کے سامنے سر اٹھا کر بات نہیں کرسکتا ہے لیکن امریکہ جیسے بڑے اور سپر پاور ملک کو لیبیا، عراق، ایران، کیوبا، وینزویلا اور شمالی کوریا نے ہمیشہ پریشان کیئے رکھا ہے۔


امریکہ اپنی چالاکی کی وجہ سے قذافی، صدام اور فیڈرل کاسترو کو ہٹانے کےلئے سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی تو اب امریکہ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان کو کسی نہ کسی طرح راستے سے ہٹانا چاہتا ہے۔


امریکہ شمالی کوریا پر اقتصادی پابندیوں کو مزید سخت کرتا جا رہا ہے اس پر کم جونگ ان کا غصہ اور زیادہ بھڑک اٹھاتا ہے۔ اگر صدر ٹرمپ ایک بیان دیتا ہے تو وہ صبح شام ٹیوٹر پر بیان جاری کرکے ٹرمپ کو مزید پریشان کئے رکھتا ہے۔ شمالی کوریا کا نوجوان سربراہ کم جونگ ان اپنے باپ اور دادا کی فوجی طبیعت اور سخت قسم کا ڈکٹیٹر ہے۔ کم جونگ ان کا دادا کم سنگ ال شمالی کوریا کا بانی تھا۔



جنوبی کوریا کے ساتھ اس نے ہی 1950 میں جنگ شروع کی تھی اس جنگ میں امریکہ جنوبی کوریا کی مدد کےلئے کود پڑا تھا جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ سابق سوویت یونین کا ڈکٹیٹر جوزیف اسٹالین شمالی کوریا کی مدد کر رہا تھا۔


یہ واحد موقع تھا جب سوویت یونین (موجودہ روس) اور امریکہ جیسی بڑی طاقتیں Proxy War کے طور پر لڑ رہی تھیں اس جنگ میں تیس لاکھ لوگ ہلاک ہوئے جن میں سے 37 ہزار امریکی شامل تھے 1953 کو اس جنگ کا اختتام ہوا تو جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے درمیان سرحدوں کی تقسیم ہوئی اور دونوں ممالک کی سرحدوں کو باڑ لگا کر سیل کر دیا گیا۔ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان کشیدگی تو چلتی رہی اور امریکہ بھی تا حال اس کشیدگی کا حصہ ہے۔


۔ ۔ ۔


شمالی کوریا امریکی کشیدگی، تاریخی پس منظر سے اور واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے اختتام پر، معلوم یہ ہوا کہ شر پسند لوگ ہرآن اپنی تخت و طاقت محفوظ رکھنے کےلئے ایٹمی ریموٹ کنٹرول دبا دیں گے لیکن بظاہر عوام کے نام پر اور انہی بے بس لوگوں کو قربانگاہ کیطرف ڈھکیل دیں گے؛ اسی تناظر میں، امام خمینی علیہ الرحمہ کے کلام سے استعارہ بطور نتیجہ اخذ کرتے ہوئے محترم قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں کہ جہاں آپ فرماتے ہیں:


" سب لوگوں کا فرض ہےکہ اگر شر پسندوں کے ہاتھ میں اسلحہ ہو تو ان سے چھین لیں اگرچہ انہیں قتل ہی کرنا پڑے اور شر پسندوں کو اپنے آپ تک پہنچے کا راستہ نہ دیں"۔


صحیفہ امام، ج۶، ص۱۴۵