امام خمینی (ره)کی نظر میں اخلاق کے جاودانی اصول

خاتمیت

خاتمیت اور اسلام کے اخلاقی اصول دائمی اور جاوید ہونے کے درمیان تلازم پایا جاتا ہے

ID: 48629 | Date: 2017/08/12

جو شخص بھی حضرت پیغمبر اسلا م  (ص) کی رسالت اور خاتمیت کا اعتراف کرتا ہے اسے اسلا م کے اخلاقی مکتب اور اخلاقی اصول کی جاودانی کا بھی اعتراف کرنا پڑے گا۔ دین اسلا م کا ظہور اس وقت ہوا جب دفتر نبوت کا خاتمہ ہوا اور مسلمانوں  نے ہمیشہ سے ختم نبوت کو ایک یقینی امر تسلیم کیا ہے چنانچہ کبھی بھی مسلمانوں  کے درمیان یہ مسئلہ نہ چھڑا کہ حضرت محمد  ﷺ کے بعد کوئی دوسرا پیغمبر آئے گا کیونکہ قرآن کریم نے بڑی صراحت کے ساتھ نبوت کے خاتمہ کا اعلان کیا ہے حضرت رسول اکرم (ص) نے بھی بارہا اس کے بارے میں  یہی فرمایا ہے۔ مسلمانوں  کے درمیان دوسرے پیغمبر کے ظہور کا نظریہ، خدا کی وحدانیت یا قیامت کے انکار کے مانند اسلا م پر ایمان رکھتے ہوئے غلط سمجھا گیا ہے۔ مسلمان علماء کے درمیان اس سلسلہ میں  جو کوشش کی گئی ہے وہ صرف اس جہت سے تھی کہ وہ لوگ اس نظریہ کی گہرائی کو معلوم کرنا چاہتے تھے اور ختم نبوت کے راز کو کشف کرنا چاہتے تھے۔ (ختم نبوت، ص ۵)


قرآن کریم میں  ختم نبوت کے سلسلہ میں  ارشاد الٰہی ہے:  { مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اﷲِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ }حضرت محمد  (ص) تم مردوں  میں  سے کسی کے باپ نہیں  ہیں  لیکن وہ اﷲ کے رسول ہیں  اور سب سے آخری نبی ہیں ۔ (سورۂ احزاب، ۳۳؍ ۴۰)


اس آیت کے لحن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے بھی مسلمانوں  کے درمیان یہ بات مشہور تھی کہ حضرت محمد  ﷺ آخری نبی ہوں گے مسلمان جس طرح آنحضرت کو خدا کا رسول جانتے تھے اسی طرح انہیں  آخری نبی بھی جانتے تھے یہ آیت صرف یہ بتانا چاہتی ہے کہ آپ کو فلاں  کا منہ بولا باپ نہ کہو بلکہ انہیں  اس واقعی عنوان سے پکارو کہ وہ اﷲ کے رسول اور آخری نبی ہیں ۔ (ختم نبوت، ص ۱۰)


امام خمینی (ره) نے اپنی عظیم کتاب ’’کشف اسرار‘‘ میں  اسی آیت کو نقل کر کے یوں  لکھا ہے:


اس آیت میں  خدا وند عالم نے پیغمبر اسلا م (ص) پر نبوت کاسلسلہ ختم کرنے کا اعلان فرمایا ہے پس آسمانی قانون اور الٰہی دستور جسے انبیاء(ع) کے ذریعہ آنا چاہئے اب انسانوں  کیلئے نہیں  آئے گا۔۔۔ اور عقل وقرآن کی رو سے قانون الٰہی کے علاوہ کوئی قانون بھی قانونی حیثیت نہیں  رکھے گا اور انسان کے قوانین کا تسلیم کرنا عقل اور قرآن کے حکم سے خارج ہے پس یہ معلوم ہو گیا کہ اسلا م کا قانون جو خدا کا آخری قانون ہے اس آیت کے مطابق ہمیشہ ہمیشہ اور تمام بشریت کیلئے رہے گا اور یورپی قوانین جو ہمارے ملک میں  بھی رائج ہیں  وہ صرف سیاہ مشق ہیں  ان پر عمل نہیں  ہونا چاہئے۔ (کشف اسرار، ص ۳۸۹، ۳۹۰)


امام خمینی (ره) نے اسی کلام میں  ختم نبوت کے واضحات وضروریات کو شمار کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:


بہت سے دینی احکام اس طرح واضحات وضروریات میں  سے بن گئے ہیں  کہ اگر ان کے بارے  میں  سوال کیا جائے تو سوال کرنے والے کو دیوانہ اور بے عقل سمجھا جائے گا۔۔۔ اگر کوئی سوال کرے کہ کس دلیل کی بنا پر اسلا م کا قانون ہمیشہ کیلئے ہے اور حضرت پیغمبر اسلا م (ص) سب سے آخری پیغمبر ہیں  تو سوائے مذاق کے کوئی جواب نہ ہو گا، تمام مسلمانوں  کے نزدیک اور تمام روئے زمین پر رہنے والے قرآن کو پیغمبر کی کتاب جانتے ہیں  اور حضرت محمد(ص) بن عبد اﷲ کو پیغمبر اسلا م جانتے ہیں  اور یہ بات بالکل ضروریات وواضحات میں  سے ہے کہ جس کیلئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں  ہے پیغمبر  (ص) کی خاتمیت کا مسئلہ بھی بالکل اسی طرح واضح ہے کوئی مسلمان اس کیلئے دلیل کی ضرورت نہیں  محسوس کرتا۔۔۔ جو دین اسلا م کو قبول کرتا ہے اسے خاتمیت کو بھی قبول کرنا پڑے گا۔ (کشف اسرار، ص ۳۹۲)


آپ نے اسی موضوع کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے نمونہ کے طور پر ایک ایسی حدیث کو ختم نبوت کی وضاحت کیلئے نقل کیا ہے یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت کے درمیان متواتر ہے:


اگرچہ یہ بات اس قدر واضح ہے کہ دلیل وروایت کی ضرورت نہیں  ہے لیکن مقصود کی اتمام کی خاطر ہم ایک حدیث سے تمسک کرتے ہیں ۔


ہم نے امامت سے متعلق ایک حدیث جو بیان کی وہ ’’حدیث منزلت‘‘ تھی جسے پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت امیر المومنین ؑ سے فرمایا: { أنت منّي بمنزلۃ ہارون من موسیٰ إلاّٰ أنہ لاٰنبي بعدي} میرے نزدیک تمہاری منزلت وہی ہے جو ہارون کی موسی  ؑ کے نزدیک تھی لیکن تم پیغمبر نہیں  ہو کیونکہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہ ہوگا۔


یہ حدیث شیعہ اور سنی طریق سے متواترات میں  سے ہے اور تواتر کے معنی یہ ہیں  کہ اس کے راوی اس قدر زیادہ ہیں  کہ ہمیں  یقین ہو کہ حضر ت پیغمبر اکرم (ص) سے وارد اس حدیث کا متواتر ہونا شیعہ کے نزدیک معلوم وثابت ہے اور اہل سنت کے نزدیک بھی متواتر ہے۔۔۔


اس مسلم حدیث میں  پیغمبر اسلا م (ص) نے کسی دوسرے پیغمبر کے نہ آنے اور اسی قانون اسلا م پر قوانین الٰہی کے ختم ہونے کا اعلان کیا ہے پس جو بھی آپ کی نبوت کو تسلیم کرتا ہے اسے آپ کی خاتمیت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔ (کشف اسرار، ص۳۹۲)


خاتمیت اور اسلا م کے اخلاقی اصول دائمی اور جاوید ہونے کے درمیان تلازم پایا جاتا ہے اور اس ملازمہ میں  کوئی شک وتردید نہیں  ہے۔ خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمد   بن عبد اﷲ (ص) نے بشر کیلئے سب سے اچھا اور کامل وجامع اخلاقی نظام پیش کیا ہے اور یہ بھی ہے کہ آپ کے بعد کوئی پیغمبر مبعوث نہیں  کیا جائے گا، بنا بر ایں  آخری پیغمبر کا اخلاقی اصول، جاوید وابدی اور مطلق ہے۔


شہید مطہری (ره) نے اس تلازم کی تصریح کرتے ہوئے لکھا ہے: دین اسلا م کی ایک خصوصیت ہے اور وہ خاتمیت وجاودانی ہے اس کا لازمہ یہ ہے کہ ہم اخلاقیات کو مطلق تسلیم کریں ۔ (تعلیم وتربیت در اسلا م، ص۱۳۹)