امام کی فاتحانہ وطن واپسی کے دوران:

فرشته بازرگان کی غیر مطبوعہ چند یادداشت

اس تاریخی روداد اور آیت ‌الله خمینی کی تقریر کے ترجمے سے متعلق لمحات جو براہ راست پوری دنیا میں نشر ہو رہے تھے، مجھ سمیت قوم کےلئے بہت دلچسپ اور ناقابل یقین لمحات تھے۔

ID: 46945 | Date: 2017/03/30

اس تاریخی روداد اور آیت ‌الله خمینی کی تقریر کے ترجمے سے متعلق لمحات جو براہ راست پوری دنیا میں نشر ہو رہے تھے، مجھ سمیت قوم کےلئے بہت دلچسپ اور ناقابل یقین لمحات تھے۔


انقلاب کی تاریخ میں فرشته بازرگان اس خاتون کا نام ہے جس نے 1979 میں مہر آباد ہوائی اڈے  میں امام خمینی کی آمد کے موقع پر منفرد کردار ادا کیا ہے۔ وہ واحد خاتون تھی جو انگریزی زبان پر تسلط رکھنے کے نتیجے میں امام خمینی کے تمام پیغامات کی رپورٹینگ کرتے ہوئے ایئرپورٹ میں موجود تمام رپورٹرز صحافیوں کےلئے انگریزی میں ترجمہ کرتی تھی۔



انجینئر مہدی بازرگان کی صاحبزادی فرشته بازرگان، 1946 کو تہران میں پیدا ہوئی، ان کی ماں ملک طباطبائی کا تعلق روحانی گھرانے سے تھا۔ وہ آیت ‌الله سید محمد طباطبائی کی صاحبزادی اور آیت ‌الله شیخ مرتضی آشتیانی کی نواسی ہے۔


فرشته بازرگان، اپنی یادداشتوں کے ایک حصے میں رقمطراز ہوتی ہے:


میں اپنے والد صاحب کے ساتھ جینے کو زندگی کا سب سے بڑا اور قیمتی عطیہ سمجھتی ہوں۔ میرے والد، اپنی حیات اور حیات کے بعد، اپنے فرزندوں اور دیگر احباب کےلئے ایک اچھے مربی ہونے کے ساتھ بہترین نمونہ بھی تھے اور اسی طرح مہربان ماں اور اخلاق اور صداقت سے آراستہ بہن بھائیوں کا وجود بھی میرے لئے وہ الہی تحفے تھے جو خدا نے مجھے عطا کیا تھا۔


امام خمینی کی آمد کے بارے وہ یوں بیان کرتی ہے۔


آیت‌ الله خمینی، کئی برس جلاوطنی کے بعد، جب ایران واپس آ رہے تھے تو میں بھی اپنے بعض دوستوں کے ہمراہ استقبالیہ کمیٹی کی معیت میں صورتحال کا جائزہ لینے کےلئے مہرآباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر پہنچی، وہاں پہنچتے ہی مجھے مترجم کی حیثیت سے صحافیوں کی صف میں جگہ دی گئی اور اس تاریخی روداد اور آیت ‌الله خمینی کی تقریر کے ترجمے سے متعلق لمحات جو براہ راست پوری دنیا میں نشر ہو رہے تھے، مجھ سمیت ایسی قوم کےلئے جو برسوں سے نوید بخش تبدیلی اور جمہوریت کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے، بہت حسین، دلچسپ اور ناقابل یقین لمحات تھے۔



ہم خدا کے اس وعدے سے غافل تھے جس میں خدا نے ارشاد فرمایا: " اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں " سماجی تبدیلی کا لازمہ اخلاقی اور ثقافتی لحاظ سے تبدیلی کا متقاضی ہے جس کا حصول، طویل مدت میں صبر و تحمل، فداکاری اور استقامت کے نتیجے میں ممکن ہے۔


 


http://www.khabaronline.ir